قُتِلَ الْإِنسَانُ مَا أَكْفَرَهُ
مارا جائے انسان! وہ کس قدر ناشکرا ہے۔
1۔ قُتِلَ الْاِنْسَانُ مَا اَكْفَرَهٗ : پچھلی آیات میں ان متکبر لوگوں کا ذکر گزرا ہے جو حق بات سننے کے لیے بھی تیار نہیں ہیں، اب انھی کافروں پر بد دعا کی گئی ہے، فرمایا : ﴿ قُتِلَ الْاِنْسَانُ ﴾ ’’انسان مارا جائے‘‘ یہ سخت سے سخت بد دعا ہے جو کسی کے لیے کی جا سکتی ہے، کیونکہ دنیا میں سب سے آخری سزا یہ ہے کہ کسی کو ختم ہی کر دیا جائے۔ (زمخشری) 2۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کو تو بد دعا کرنے کی ضرورت ہی نہیں، تو اس طرح کیوں فرمایا؟ جواب یہ ہے کہ یہ عرب کے اسلوب پر فرمایا ہے جو ان الفاظ میں بد دعا کرتے تھے۔ مطلب یہ ہے کہ اتنی نعمتوں کے باوجود یہ انسان جس طرح ناشکری کر رہا ہے اس پر کوئی بھی غور کرے گا تو اس کے منہ سے یہ بد دعا نکلے گی۔ 3۔ ’’ مَا اَكْفَرَهٗ ‘‘ کا معنی ہے ’’وہ کس قدر ناشکرا ہے!‘‘ دوسرا معنی ہے ’’(اتنی نعمتوں کے باوجود) وہ کون سی چیز ہے جس نے اسے ناشکرا بنا دیا ہے؟‘‘ (ابن جریر)