بِأَيْدِي سَفَرَةٍ
ایسے لکھنے والوں کے ہاتھوں میں ہیں۔
1۔ بِاَيْدِيْ سَفَرَةٍ....:’’ سَفَرَةٍ‘‘ ’’سَافِرٌ‘‘ کی جمع ہے، لکھنے والا۔ ’’سِفْرٌ‘‘ کتاب، اس کی جمع ’’أَسْفَارٌ‘‘ہے، جیساکہ فرمایا : ﴿كَمَثَلِ الْحِمَارِ يَحْمِلُ اَسْفَارًا ﴾ [ الجمعۃ : ۵ ] ’’(بے عمل یہود کی مثال) گدھے کی طرح ہے جو کتابیں اٹھائے ہوئے ہو۔‘‘ ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید لکھنے والوں کی تعریف فرمائی ہے، خواہ وہ فرشتے ہوں یا کاتبین وحی، صحابہ ہوں یا دوسرے، فرمایا یہ لوگ اللہ کے ہاں بہت عزت والے اور نہایت نیک ہیں۔ اس طرح کتابت کے علاوہ اس کا پڑھنا پڑھانا بھی سب سے بہتر اور نیک ہونے کی دلیل ہے، عثمان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : (( خَيْرُكُمْ مَنْ تَعَلَّمَ الْقُرْآنَ وَعَلَّمَهٗ )) [بخاري، فضائل القرآن، باب خیرکم من تعلّم....: ۵۰۲۷ ] ’’تم میں سب سے بہتر وہ ہے جو قرآن سیکھے اور سکھائے۔‘‘ 2۔ ’’ سَفَرَةٍ ‘‘ ’’سِفَارَةٌ‘‘ (سفارت) سے بھی مشتق ہو سکتا ہے، تو اس سے مراد فرشتے ہیں، کیونکہ وہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسولوں کے درمیان سفیر کی حیثیت رکھتے ہیں کہ ان کے پاس وحی الٰہی لے کر آتے ہیں۔