بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَٰنِ الرَّحِيمِ
اللہ کے نام سے جو بے حد رحم والا، نہایت مہربان ہے۔
اس سورت کی ابتدا میں چند قسموں کے بعد فرمایا : ﴿ اِنَّمَا تُوْعَدُوْنَ لَوَاقِعٌ ﴾ ’’جس چیز کا تم سے وعدہ کیا جاتا ہے یقیناً وہ ہو کر رہنے والی ہے۔‘‘ یعنی یہ قسمیں اس بات کا یقین دلانے کے لیے ذکر کی گئی ہیں کہ قیامت برحق ہے ۔ ان آیات میں جن چیزوں کی قسم کھائی گئی ہے ان کا ذکر نام لے کر نہیں کیا گیا بلکہ صرف ان کی صفات بیان کی گئی ہیں، وہ صفات کئی چیزوں میں پائی جاتی ہیں، اس لیے مفسرین نے مختلف چیزیں ان کا مصداق قرار دی ہیں۔ اکثر مفسرین نے ان کا مصداق ہواؤں کو قرار دیا ہے، بعض نے ان کا مصداق فرشتے قرار دیے ہیں اور بعض نے پہلی چار صفات ہواؤں کی اور آخری صفت’’ فَالْمُلْقِيٰتِ ذِكْرًا (5) عُذْرًا اَوْ نُذْرًا ‘‘ فرشتوں کی بیان کی ہے، مگر کلام کے تسلسل کو ملحوظ رکھا جائے تو یہ تمام صفات ایک ہی چیز کی ہونی چاہییں اور زیادہ واضح یہی ہے کہ ان سے مراد ہوائیں ہیں، کیونکہ ان آیات میں جو صفات مذکور ہوئی ہیں قرآن مجید کے مختلف مقامات پر یہ صفات ہواؤں ہی کی بیان ہوئی ہیں، مثلاً اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿ اَللّٰهُ الَّذِيْ يُرْسِلُ الرِّيٰحَ فَتُثِيْرُ سَحَابًا فَيَبْسُطُهٗ فِي السَّمَآءِ كَيْفَ يَشَآءُ وَ يَجْعَلُهٗ كِسَفًا فَتَرَى الْوَدْقَ يَخْرُجُ مِنْ خِلٰلِهٖ ﴾ [ الروم : ۴۸ ] ’’ اللہ وہ ہے جو ہواؤں کو بھیجتا ہے اور وہ بادل کو اٹھاتی ہیں، پھر وہ اسے آسمان میں جس طرح چاہتا ہے پھیلا دیتا ہے اور اسے کئی ٹکڑے بنا دیتا ہے تو تم بارش کے قطرے اس کے درمیان سے نکلتے ہوئے دیکھتے ہو۔‘‘ اور فرمایا : ﴿وَ لِسُلَيْمٰنَ الرِّيْحَ عَاصِفَةً تَجْرِيْ بِاَمْرِهٖ اِلَى الْاَرْضِ الَّتِيْ بٰرَكْنَا فِيْهَا ﴾ [ الأنبیاء : ۸۱ ] ’’ اور ہم نے سلیمان کے لیے تیز و تند ہوا تابع کر دی اور وہ اس کے حکم سے اس زمین کی طرف چلتی تھی جس میں ہم نے برکت رکھی۔‘‘ علاوہ ازیں قیامت کے ثبوت کے لیے فرشتوں کے اوصاف پیش کرنے کے بجائے جو نظر ہی نہیں آتے، ایسی چیز پیش کرنا زیادہ مناسب ہے جو ہر شخص کو نظر آتی ہے۔