وَمَا تَشَاءُونَ إِلَّا أَن يَشَاءَ اللَّهُ ۚ إِنَّ اللَّهَ كَانَ عَلِيمًا حَكِيمًا
اور تم نہیں چاہتے مگر یہ کہ اللہ چاہے، یقیناً اللہ ہمیشہ سے سب کچھ جاننے والا، کمال حکمت والا ہے۔
وَ مَا تَشَآءُوْنَ اِلَّا اَنْ يَّشَآءَ اللّٰهُ ....: مگر تمھارا چاہنا اللہ کے چاہنے کے تابع ہے، وہ نہ چاہے تو کچھ بھی نہیں ہو سکتا۔ عمر بن عبد العزیز رحمہ اللہ نے تقدیر کے منکروں کو اسی آیت سے لاجواب کیا تھا۔ خوارج کا ایک گروہ ان کے پاس آیا اور تقدیر کے انکار کی دلیل کے طور پر اسی سورت کی ابتدا میں سے یہ آیت پڑھی : ﴿ اِنَّا هَدَيْنٰهُ السَّبِيْلَ اِمَّا شَاكِرًا وَّ اِمَّا كَفُوْرًا ﴾ [الدھر:۳ ] ’’یعنی ہم نے انسان کو راستہ بتا دیا ہے، اب چاہے تو شکر کرنے والا بن جائے اور چاہے تو کفر کرنے والا۔‘‘ عمر بن عبد العزیز رحمہ اللہ نے فرمایا، آگے پڑھتے جاؤ، آخر میں یہ آیت آئی تو فرمایا، بے شک انسان جو راستہ چاہے اختیار کرے، مگر یہ اختیار بھی اللہ تعالیٰ کی مشیت کے تابع ہے۔ اللہ تعالیٰ سے زبردست ہو کر کوئی شخص نہ نیک بن سکتاہے نہ بد۔ ’’ اِنَّ اللّٰهَ كَانَ عَلِيْمًا حَكِيْمًا ‘‘ یعنی اللہ تعالیٰ کی یہ مشیت اندھی مشیت نہیں ہے، بلکہ وہ علیم وحکیم ہے اور اس کی مشیت اس کے علم و حکمت پر مبنی ہے۔ وہ انھی لوگوں کو ہدایت دیتا ہے جو اس کے علم و حکمت کے مطابق اس کے اہل ہیں۔