وَيُسْقَوْنَ فِيهَا كَأْسًا كَانَ مِزَاجُهَا زَنجَبِيلًا
اور اس میں انھیں ایسا جام پلایا جائے گا جس میں سونٹھ ملی ہوگی۔
وَ يُسْقَوْنَ فِيْهَا كَاْسًا ....: ’’ كَاْسًا‘‘ وہ پیالہ جس میں شراب ہو، خالی پیالے کو کاس نہیں کہتے۔ ’’مِزَاجٌ‘‘ آمیزش، ملونی، یعنی وہ چیز جو لذت یا خوشبو میں اضافے کے لیے ملائی جائے۔ ’’ زَنْجَبِيْلًا ‘‘ ادرک، سونٹھ۔ ’’ سَلْسَبِيْلًا ‘‘ کے تین معانی ہیں : (1) آسانی سے حلق میں اتر جانے والا۔ (2) تیزی سے بہنے والا۔ (3) آسانی سے تابع ہونے والا کہ جدھر لے جانا چاہیں لے جائیں۔عرب لوگ شراب کی لذت، حرارت، تلخی اور خوشبو میں اضافے کے لیے اس میں سونٹھ کی آمیزش کرتے تھے، اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ جنتیوں کو جو جامِ شراب پلایا جائے گا اس میں زنجبیل کی آمیزش ہو گی۔ گویا جنت میں ایک وہ شراب ہو گی جو ٹھنڈی ہو گی، جس میں کافور کی آمیزش ہوگی اور ایک گرم ہوگی جس میں سونٹھ ملی ہو گی۔ واضح رہے کہ جنت کی نعمتوں کے ذکر کے وقت دنیا کی جن چیزوں کا ذکر آیا ہے ان سے بعینہٖ وہی چیزیں مراد نہیں بلکہ ان سے بے حد و حساب اعلیٰ چیزیں مراد ہیں۔ دیکھیے سورۂ سجدہ (۱۷) کی تفسیر۔ صاحب احسن التفاسیر لکھتے ہیں: ’’اگرچہ جنت میں کھانے پینے، پہننے اور برتنے کی جتنی چیزیں ہیں ان کے نام دنیا کی چیزوں سے ملتے ہیں، لیکن جنت کی چیزوں اور دنیا کی چیزوں میں بڑا فرق ہے۔ مثلاً دنیا میں ایسا دودھ کہاں ہے جس کی ہمیشہ نہر بہتی ہو اور پھر دوسرے دن ہی وہ کھٹا نہ ہو جائے؟ وہ شہد کہاں ہے جس کی نہر بہتی ہو اور مکھیوں کی بھنکار اس میں جم جم کر نہ مرے اور ہوا سے خاک اور کوڑا کرکٹ اس پر نہ پڑے؟ اور وہ شراب کہاں ہے جس کی نہر ہو اور بدبو کے سبب سے اس نہر کے آس پاس کا راستہ کچھ دنوں میں بند نہ ہو جائے۔‘‘ (احسن التفاسیر) ’’ عَيْنًا‘‘ ’’ كَاْسًا‘‘ سے بدل ہے یا منصوب بہ نزع الخافض ہے، یعنی ’’يُسْقَوْنَ كَأْسًا مِّنْ عَيْنٍ۔‘‘ مطلب یہ کہ انھیں وہ جامِ شراب جس میں زنجبیل کی آمیزش ہو گی، ایسے چشمے سے پلایا جائے گا جس کا نام سلسبیل ہے۔ یہ نام رکھنے کی وجہ یہ ہے کہ اس کا پانی نہایت خوش گوار، رقیق اور آسانی سے حلق سے اترنے والا ہوگا اور اس چشمے سے نکلنے والی نالیاں نہایت تیز رفتار اور اہلِ ایمان کے لیے نہایت تابع ہوں گی کہ وہ جدھر چاہیں گے انھیں لے جائیں گے۔