سورة القيامة - آیت 31

فَلَا صَدَّقَ وَلَا صَلَّىٰ

ترجمہ عبدالسلام بھٹوی - عبدالسلام بن محمد

سو نہ اس نے سچ مانا اور نہ نماز ادا کی۔

تفسیر القرآن کریم (تفسیر عبدالسلام بھٹوی) - حافظ عبدالسلام بن محمد

فَلَا صَدَّقَ وَ لَا صَلّٰى....: ’’ يَتَمَطّٰى‘‘ ’’م ط و‘‘سے ’’تَمَطّٰي‘‘ کا مضارع ہے۔ ’’مَطَا‘‘ کا معنی پیٹھ ہے، یعنی اکڑتا ہوا۔ ’’اَوْلٰى ‘‘ ’’و ل ی‘‘ سے اسم تفضیل ہے، زیادہ لائق، زیادہ حق دار، زیادہ قریب۔ 2۔ ’’ فَلَا صَدَّقَ ‘‘ (سو نہ اس نے سچ مانا) میں ضمیر ’’ الْاِنْسَانُ ‘‘ کی طرف جا رہی ہے جس کا اوپر ’’ اَيَحْسَبُ الْاِنْسَانُ اَلَّنْ نَّجْمَعَ عِظَامَهٗ ‘‘ میں ذکر ہے۔ یعنی یہ دیکھنے کے بعد کہ موت کے وقت انسان پر کیا گزرتی ہے اور کس طرح بے بس ہو کر اسے اپنے رب کی طرف روانہ ہونا پڑتا ہے، حق تو یہ تھا کہ وہ آخرت کو سچ مانتا اور اس دن کی نجات کے لیے نماز ادا کرتا اور اللہ کی زمین پر عجز و بندگی اختیار کرتا، مگر اس نے نہ عقیدہ کی اصلاح کی اور نہ عمل کی اور نہ لوگوں کے ساتھ اپنی روش درست کی، بلکہ آخرت کو اور پیدا کرنے والے کو جھٹلایا اور ماننے کے بجائے منہ پھیر کر چلا گیا اور عجز و بندگی اختیار کرنے کے بجائے گھر کو گیا تو اکڑتا ہوا گیا۔ اَوْلٰى لَكَ فَاَوْلٰى: اس آیت کی سب سے بہتر تفسیر وہ ہے جو حافظ ابن کثیر نے فرمائی ہے کہ اس کافر کو جس نے اپنے خالق سے کفر کیا اور متکبرانہ چال چلا، اسے اللہ تعالیٰ کی طرف سے طنز اور دھمکی کے طور پر کہا جا رہا ہے کہ جب تو نے جھٹلا دیا اور اپنے خالق سے کفر کی جرأت کرچکا تو تیرا حق بنتا ہے کہ یہ چال چلے اور یہی چال تیرے لائق ہے۔ ہم تمھاری چال دیکھ رہے ہیں اور تمھیں اس کا نتیجہ مل جائے گا، جیسا کہ فرمایا : ﴿كُلُوْا وَ تَمَتَّعُوْا قَلِيْلًا اِنَّكُمْ مُّجْرِمُوْنَ ﴾ [ المرسلات : ۴۶ ] ’’کھاؤ اور فائدہ اٹھاؤ، تھوڑا، یقیناً تم مجرم ہو۔‘‘ اور فرمایا: ﴿ فَاعْبُدُوْا مَا شِئْتُمْ مِّنْ دُوْنِهٖ ﴾ [ الزمر : ۱۵ ] ’’اس اللہ کے علاوہ جس کی چاہو عبادت کرتے رہو۔‘‘ اور فرمایا: ﴿ اِعْمَلُوْا مَا شِئْتُمْ ﴾ [ المؤمن: ۴۰] ’’تم جو چاہو کرو۔‘‘ ’’ اَوْلٰى لَكَ فَاَوْلٰى (34) ثُمَّ اَوْلٰى لَكَ فَاَوْلٰى ‘‘ میں تکرار مزید وعید کے لیے ہے۔ یہ معنی اس لیے بھی بہتر ہے کہ ’’ اَوْلٰى ‘‘ کا معنی ’’زیادہ لائق، زیادہ حق دار ‘‘ معروف ہے۔ 4۔ بہت سے مفسرین نے ’’ اَوْلٰى لَكَ ‘‘ کا معنی ’’خرابی ہے تیرے لیے، افسوس ہے تیرے لیے، ہلاکت ہے تیرے لیے‘‘ کیا ہے، کیونکہ ’’ اَوْلٰى لَكَ ‘‘ کلام عرب میں ’’وَيْلٌ لَّكَ‘‘ کے معنی میں بھی آتا ہے۔ مگر یہ معنی ’’ اَوْلٰى لَكَ ‘‘ کا لفظی معنی نہیں ہے، لفظی معنی ’’زیادہ لائق، زیادہ حق دار‘‘ ہی ہے،کیونکہ ’’ اَوْلٰى ‘‘ کے حروف اصلی ’’ و ل ی‘‘ ہیں، ’’و ی ل‘‘ نہیں، بلکہ یہ معنی مرادی ہے اور اس کی توجیہ یہ ہے کہ موقع و محل کے مطابق ’’ اَوْلٰى لَكَ ‘‘ کا مبتدا ’’اَلْهِلَاكُ‘‘ یا ’’اَلنَّارُ‘‘ محذوف مانا جائے، یعنی ہلاکت ہی تیرے زیادہ لائق ہے، یا آگ ہی تیرے زیادہ لائق ہے۔