لَا أُقْسِمُ بِيَوْمِ الْقِيَامَةِ
نہیں، میں قیامت کے دن کی قسم کھاتا ہوں!
1۔ لَا اُقْسِمُ بِيَوْمِ الْقِيٰمَةِ....: ’’الْقِيٰمَةِ‘‘ ’’قِيَامٌ‘‘ مصدر ہے، کھڑا ہونا،تاء ’’ایک دفعہ‘‘ کا معنی ادا کرنے کے لیے ہے، یعنی آدمی کا ایک دفعہ کھڑا ہونا۔یہاں یہ تنبیہ کے لیے لائی گئی ہے کہ قیامت کا وقوع دفعتاً ہو گا۔ (راغب) ’’يَوْمُ الْقِيَامَةِ‘‘ کا معنی ہو گا ایک ہی دفعہ اٹھ کھڑے ہونے کا دن۔ ’’ اللَّوَّامَةِ ‘‘ ’’لَامَ يَلُوْمُ‘‘ سے مبالغے کا صیغہ ہے، یعنی بہت ملامت کرنے والا، جیسے ’’عَلَّامَةٌ‘‘ اور ’’ فَهَّامَةٌ ‘‘ ہے۔ 2۔ ’’ لَا اُقْسِمُ ‘‘ کا معنی یہ نہیں کہ میں قسم نہیں کھاتا، بلکہ ’’ لَا‘‘ الگ ہے اور ’’ اُقْسِمُ ‘‘ الگ۔ معنی یہ ہے کہ نہیں، میں قیامت کے دن کی قسم کھاتا ہوں۔ عرب کے ہاں یہ محاورہ عام ہے ’’لاَ وَاللّٰهِ‘‘ یعنی جب کوئی شخص انکار کر رہا ہو تو پہلے اس کے انکار کی نفی ’’لَا‘‘سے کی جاتی ہے، پھر اپنی بات کی تاکید کے لیے قسم ذکر کی جاتی ہے۔ اردو میں بھی مخاطب کے غلط خیال کی تردید کے لیے ایسے ہی کہا جاتا ہے کہ نہیں، اللہ کی قسم! بات اس طرح ہے۔ کئی مفسرین نے فرمایا کہ ’’ لَا ‘‘ زائدہ ہے اورمعنی یہ ہے کہ میں قسم کھاتا ہوں۔ مگر زائدہ ماننے کے بجائے بامعنی قرار دینا بلاغتِ قرآن کے زیادہ لائق ہے، جب کہ معنی بھی درست ہو رہا ہے اور پر زور ہو رہا ہے۔ 3۔ قرآن میں انسانی نفس کی تین قسموں کا ذکر کیا گیا ہے، ایک وہ جو اسے گناہ پر ابھارتا ہے، اس کا نام ’’امارہ‘‘ہے، جیساکہ فرمایا : ﴿اِنَّ النَّفْسَ لَاَمَّارَةٌۢ بِالسُّوْٓءِ ﴾ [یوسف:۵۳ ] ’’ نفس تو برائی کا حکم دینے والا ہے۔ ‘‘دوسرا وہ نفس جو آدمی کو برائی پر ملامت کرتا ہے، اس کا نام ’’لوامہ‘‘ ہے۔ کوئی بھی شخص خواہ نیک ہو یا بد، نیک کام میں کوتاہی اور برے کام کے ارتکاب پر خود اس کا نفس اسے ملامت کرتا ہے کہ تم نے ایسا کیوں کیا؟ اسے عام طور پر اردو میں ضمیر کہتے ہیں۔ تیسرا وہ جسے اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کی تمام باتوں پر یقین ہو اور ان کے حق ہونے پر اسے پورا اطمینان اور تسلی ہو، منافقین کی طرح شک و شبہ میں مبتلا نہ ہو، یہ ’’نفس مطمئنہ ‘‘ ہے۔ بعض اہل علم نے فرمایا کہ یہ ایک ہی نفس کی مختلف وقتوں میں تین حالتیں ہیں۔ 4۔ ’’ بِيَوْمِ الْقِيٰمَةِ ‘‘ اور ’’ بِالنَّفْسِ اللَّوَّامَةِ ‘‘ کی قسم جس بات پر کھائی گئی ہے وہ یہاں لفظوں میں مذکور نہیں، مگر بعد میں آنے والی آیات سے وہ بات خود بخود سمجھ میں آرہی ہے کہ وہ یہ ہے کہ ہم یقیناً انسان کی ہڈیاں اکٹھی کرکے اسے دوبارہ زندہ کریں گے۔ 5۔ قسم سے مراد اس بات کی تاکید ہوتی ہے جس کے لیے قسم کھائی جاتی ہے، پھر بعض اوقات تاکید کی صورت یہ ہوتی ہے کہ وہ چیز نہایت عظیم الشان ہوتی ہے جس کی قسم کھائی گئی ہے اور اس کی عظمت ہی بات کی تاکیدکے لیے کافی سمجھی جاتی ہے اور بعض اوقات قسم اپنے جواب قسم کی دلیل ہوتی ہے جس سے اس کی تاکید ہوتی ہے۔ یہاں قیامت کے دن کی قسم قیامت کے حق ہونے کی تاکید کے لیے اٹھائی گئی ہے، اس کی وجہ قیامت کی عظمت بھی ہے اور یہ بھی کہ روز قیامت اپنی دلیل خود ہے، جیساکہ سورۂ ص میں قرآن کے حق ہونے کے لیے خود قرآن کی قسم کھائی ہے، فرمایا: ﴿ صٓ وَ الْقُرْاٰنِ ذِي الذِّكْرِ ﴾ [ صٓ : ۱ ] ’’صٓ۔ اس نصیحت والے قرآن کی قسم۔ ‘‘ اور نفس لوامہ کی قسم اس لیے کہ یہ بات انسان کی فطرت میں رکھ دی گئی ہے کہ اس کا نفس برے کام پر اسے ملامت کرتا ہے، قطع نظر اس سے کہ اس کے نزدیک اچھائی یا برائی کا معیار کیا ہے اور قطع نظر اس سے کہ وہ ضمیر کی اس ملامت کی پروا کرتا ہے یا نہیں؟ ملامت کرنے والا یہ نفس اللہ تعالیٰ کی طرف سے انسان پر حجت ہے کہ جس طرح تمھارا اپنا نفس خود تم سے باز پرس کر رہا ہے لازم ہے کہ ایک ایسا وقت آئے جب تمھارا پیدا کرنے والا تم سے باز ُپرس کرے۔