سورة المدثر - آیت 32

كَلَّا وَالْقَمَرِ

ترجمہ عبدالسلام بھٹوی - عبدالسلام بن محمد

ہرگز نہیں، چاند کی قسم!

تفسیر القرآن کریم (تفسیر عبدالسلام بھٹوی) - حافظ عبدالسلام بن محمد

كَلَّا وَ الْقَمَرِ ....:’’ كَلَّا ‘‘ ہر گز نہیں، یعنی جہنم یا اس پر مامور فرشتوں کی تعداد سے انکار ہرگز درست نہیں۔ اس کے بعد تین چیزوں کی قسم کھا کر فرمایا کہ جہنم یقیناً بہت ہی بڑی چیز ہے۔ ان قسموں کی مناسبت جواب قسم سے یہ معلوم ہوتی ہے کہ جہنم کا انکار کرنے والوں کا انکار اس لیے ہے کہ وہ ان کی نگاہوں سے اوجھل ہے اور ان کے خیال میں اتنی بڑی ہولناک اور عظیم الشان چیز کا موجود ہونا ممکن نہیں۔ فرمایا اس کائنات میں چاند کو دیکھو، وہ ہلال سے بدر اور بدر سے ہلال ہونے تک روزانہ جن مراحل سے گزرتا ہے ان پر غور کرو، رات کو دیکھو جب وہ رخصت ہوتی ہے اور کائنات میں روزانہ ایک عظیم انقلاب رونما ہوتا ہے، پھر صبح کو دیکھو جب روشن ہوتی ہے تو رات کی ظلمت اپنا بوریا بستر سمیٹ لیتی ہے۔ ان میں سے ہر چیز اللہ کی قدرت کی بہت بڑی نشانی ہے، ان میں سے کوئی بھی چیز اگر تم نے دیکھی نہ ہوتی اور تمھیں اس کے متعلق بتایا جاتا تو تم اس کا اسی طرح انکار کر دیتے جس طرح جہنم کا انکار کر رہے ہو؟ جب اتنی بڑی بڑی حقیقتیں تم اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہو اور تمھیں ان کے موجود ہونے میں کوئی شک نہیں تو ان چیزوں کا پیدا کرنے والا تمھیں بتا رہا ہے کہ یقیناً جہنم بھی اس کی بہت بڑی نشانیوں میں سے ایک ہے، اس میں تمھیں شک کیوں ہے؟ ایک مناسبت یہ بھی ہے کہ تمھارا یہ جلدی مچانا بھی بے محل ہے کہ اگرسچے ہو تو ابھی لاؤ وہ قیامت اور جہنم جس سے ڈراتے ہو۔ فرمایا چاند کا ہلال سے بدر اور بدر سے ہلال تک پہنچنا، رات کا جانا اور صبح کا روشن ہونا اور کائنات کے بڑے بڑے انقلابات میں سے ہر انقلاب اپنے مقرر وقت پر آتا ہے، کبھی وقت سے پہلے نہیں آتا، اسی طرح تم یقیناً درجہ بدرجہ قیامت کی طرف جا رہے ہو اور بہت جلد جہنم تمھارے سامنے آجائے گی۔سورۃ انشقاق کی آیات (۱۶ تا ۱۹) میں یہ مضمون بیان ہوا ہے، تفصیل کے لیے ان آیات کی تفسیر ملاحظہ کریں۔ ’’ الْكُبَرِ‘‘ ’’كُبْرٰي‘‘ کی جمع ہے، جو ’’أَكْبَرُ‘‘ کی مؤنث ہے۔ ’’ نَذِيْرًا ‘‘ ڈرانے والی، ’’فَعِيْلٌ‘‘ کا وزن مذکر و مؤنث اور واحد، تثنیہ و جمع سب کے لیے آجاتا ہے ۔ یعنی یہ انسانوں کو ڈرانے والی ہے، ان انسانوں کو جنھیں اختیار ہے کہ یہ جہنم سے ڈرانے والی آیات سن کرچاہیں تو ایمان قبول کرکے جنت کی طرف بڑھ جائیں اور چاہیں تو پیچھے رہ کر جہنم کے سزاوار بن جائیں، جیساکہ فرمایا : ﴿فَمَنْ شَآءَ فَلْيُؤْمِنْ وَّ مَنْ شَآءَ فَلْيَكْفُرْ ﴾ [الکہف:۲۹] ’’پھر جو چاہے سو ایمان لے آئے اور جو چاہے سو کفر کرے۔‘‘ یعنی ایمان و کفر دونوں کا اختیار ہے، ہاں، کفر کی اجازت نہیں اور نہ وہ اللہ کو پسند ہے، جیسا کہ فرمایا: ﴿ وَ لَا يَرْضٰى لِعِبَادِهِ الْكُفْرَ ﴾ [ الزمر : ۷ ] ’’اور وہ اپنے بندوں کے لیے کفر کو پسند نہیں کرتا۔‘‘