فَكَيْفَ إِذَا أَصَابَتْهُم مُّصِيبَةٌ بِمَا قَدَّمَتْ أَيْدِيهِمْ ثُمَّ جَاءُوكَ يَحْلِفُونَ بِاللَّهِ إِنْ أَرَدْنَا إِلَّا إِحْسَانًا وَتَوْفِيقًا
پھر کیسے گزرتی ہے اس وقت جب انھیں کوئی مصیبت اس کی وجہ سے پہنچتی ہے جو ان کے ہاتھوں نے آگے بھیجا، پھر تیرے پاس اللہ کی قسمیں کھاتے ہوئے آتے ہیں کہ ہم نے تو بھلائی اور آپس میں ملانے کے سوا کچھ نہیں چاہا تھا۔
یعنی جب اپنے کرتوتوں کے سبب عتاب الٰہی کا شکار ہو کر مصیبتوں میں پھنستے ہیں تو پھر آکر کہتے ہیں کہ کسی دوسری جگہ جانے سے مقصد یہ نہیں تھا کہ وہاں سے ہم فیصلہ کروائیں گے، یا آپ سے زیادہ ہمیں وہاں سے انصاف ملے گا، بلکہ مقصد صلح اور ملاپ کرانا تھا۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اگرچہ ہم ان کے دلوں کے بھیدوں سے واقف ہیں، جس پر ہم انھیں جزا دیں گے، لیکن اے پیغمبر ! آپ ان کے ظاہر کو سامنے رکھتے ہوئے در گزر ہی فرمائیے اور وعظ و نصیحت اور قول بلیغ کے ذریعے سے ان کے باطن کی اصلاح کی کوشش جاری رکھیے۔ اس سے معلوم ہوا کہ ایسے دشمنوں کی سازش کو عفو و درگزر، وعظ و نصیحت اور قول بلیغ ہی کے ذریعے سے ناکام بنانے کی سعی کی جانی چاہیے۔ یاد رہے! یہ اس وقت کی بات ہے کہ جب منافق مغلوب تھے اور اسلام اور اس کے احکام اور عدالتیں غالب تھیں اور منافق دوسرے لوگوں سے فیصلہ کرانے پر پشیمان ہو کر عذر معذرتیں کرتے تھے۔﴿وَمَآ اَرْسَلْنَا مِنْ رَّسُوْلٍ ۔۔﴾ : اطاعت رسول کی دوبارہ ترغیب دی ہے۔ یعنی اللہ کے رسول دنیا میں اس لیے آتے ہیں کہ تمام معاملات میں اللہ کے حکم کے مطابق ان کی اطاعت کی جائے۔ ﴿باذن اللہ﴾ کا معنی اللہ کی توفیق و اعانت بھی کیا گیا ہے، وہ بھی درست ہے، معلوم ہوا ہر رسول واجب الاطاعت ہوتا ہے۔ ﴿وَلَوْ اَنَّھُمْ اِذْ ظَّلَمُوْٓا﴾ : اپنی جان پر ظلم کرنے کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آنا اور آپ سے استغفار کروانا آپ کی زندگی کے ساتھ خاص تھا، آپ کی وفات کے بعد کسی صحابی سے ثابت نہیں کہ وہ آپ کی قبر مبارک پر آیا ہو اور آپ سے دعا کرنے کی درخواست کی ہو۔ حافظ ابن کثیر رضی اللہ عنہ نے یہاں ایک بدوی کی حکایت نقل کی ہے، جس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر کے پاس آکر یہ آیت پڑھتے ہوئے کچھ شعر پڑھے اور کہا کہ میں اللہ سے استغفار کرتا ہوں اور آپ کو سفارشی بناتا ہوں، اس پر قبر انور کے پاس بیٹھنے والے ایک شخص نے کہا، خواب میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا ہے: ”اس بدوی کو بخش دیا گیا ہے۔“ لیکن یہ ایک حکایت ہے جو آیت کی مناسبت سے ذکر کر دی گئی ہے، یہ نہ آیت کی تفسیر ہے نہ حدیث ہے۔ [الصارم المنکی ص: ٢٣٨] میں لکھا ہے کہ اس حکایت کی سند نہایت کمزور ہے۔ اور نبی کے خواب کے علاوہ کسی کا خواب دین میں دلیل بھی نہیں بنتا۔ آیت سے یہ تو ثابت ہوتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات مبارکہ میں آپ سے دعائے مغفرت کروائی جا سکتی تھی، مگر آپ کی وفات کے بعد اس آیت کی رو سے قبر پر جا کر سفارش اور دعا کی درخواست کرنا کسی طرح صحیح نہیں۔ ﴿جَاۗءُوْكَ فَاسْتَغْفَرُوا اللّٰهَ وَاسْتَغْفَرَ لَھُمُ الرَّسُوْلُ﴾ : اللہ تعالیٰ کی بخشش حاصل کرنے کے لیے اللہ تعالیٰ کی جناب میں توبہ و استغفار ضروری اور کافی ہے، لیکن یہاں جو کہا گیا ہے کہ اے پیغمبر ! وہ تیرے پاس آتے اور اللہ سے بخشش مانگتے اور تو بھی ان کے لیے مغفرت طلب کرتا، تو یہ اس لیے کہ چونکہ انہوں نے جھگڑے کے فیصلے کے لیے دوسروں کی طرف رجوع کر کے آپ کی شان کے نا مناسب حرکت کی تھی، اس لیے اس کے ازالے کے لیے انہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آنے کی تاکید فرمائی۔