سورة الجن - آیت 18

وَأَنَّ الْمَسَاجِدَ لِلَّهِ فَلَا تَدْعُوا مَعَ اللَّهِ أَحَدًا

ترجمہ عبدالسلام بھٹوی - عبدالسلام بن محمد

اور یہ کہ بلاشبہ مساجد اللہ کے لیے ہیں، پس اللہ کے ساتھ کسی کو مت پکارو۔

تفسیر القرآن کریم (تفسیر عبدالسلام بھٹوی) - حافظ عبدالسلام بن محمد

وَ اَنَّ الْمَسٰجِدَ لِلّٰهِ ....: ’’ الْمَسٰجِدَ ‘‘ ’’مَسْجِدٌ‘‘ کی جمع ہے، اس کا معنی سجدے بھی ہے (مصدر میمی) اور وہ جگہیں بھی جہاں سجدے کیے جاتے ہیں، یعنی مسجدیں اور وہ جگہیں یعنی اعضا بھی جن پر سجدہ ہوتا ہے، یعنی پیشانی، ہاتھ پاؤں اور گھٹنے ( ان دونوں معنوں کی صورت میں یہ ظرف ہے)۔ مطلب یہ ہے کہ سب سجدے بھی اللہ کے لیے ہیں، مسجدیں بھی اور اعضائے سجدہ بھی، تو پھر پکارنا بھی صرف اسی کا حق ہے، اس کے ساتھ کسی دوسرے کو مت پکارو۔ ’’ الْمَسٰجِدَ ‘‘ کا لفظ اتنا عام ہے کہ اس سے مراد صرف وہی جگہیں نہیں جو عبادت کے لیے تعمیر کی گئی ہیں بلکہ اس میں زمین کا ہر قطعہ شامل ہے، کیونکہ اس امت کے لیے ساری زمین ہی مسجد ہے۔ اس آیت سے معلوم ہوا کہ اللہ کے علاوہ کسی دوسرے کو پکارنا منع ہے۔ بعض لوگ جو مصیبت یا بیماری میں ’’یا اللہ‘‘ کے ساتھ ’’یا رسول اللہ‘‘، ’’یا علی‘‘، ’’یا حسین‘‘ اور ’’یا شیخ عبدالقادر‘‘ وغیرہ کہتے اور ان کو مدد کے لیے پکارتے ہیں ان کا یہ فعل درست نہیں۔ غیر اللہ کو پکارنے کی ممانعت کے لیے ملاحظہ فرمائیں سورۂ یونس ( ۱۰۶)، رعد( ۱۴)، نحل (21،20)، حج (۶۲، ۷۳، ۷۴)، مومنون (۱۱۷)، شعراء ( ۲۱۳) ، قصص (۸۸)، سبا ( ۲۲)، فاطر (۱۳، ۱۴) اور سورۂ احقاف ( ۵)۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ پکارنا ہی اصل عبادت ہے اور اللہ کے علاوہ کسی کی عبادت جائز نہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : (( اَلدُّعَاءُ هُوَ الْعِبَادَةُ ))’پکارنا ہی عبادت ہے۔‘‘ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ آیت پڑھی : ﴿ وَ قَالَ رَبُّكُمُ ادْعُوْنِيْ اَسْتَجِبْ لَكُمْ اِنَّ الَّذِيْنَ يَسْتَكْبِرُوْنَ۠ عَنْ عِبَادَتِيْ سَيَدْخُلُوْنَ جَهَنَّمَ دٰخِرِيْنَ ﴾ [ المؤمن : ۶۰ ] ’’اور تمھارے رب نے فرمایا مجھے پکارو، میں تمھاری دعا قبول کروں گا۔ بے شک وہ لوگ جو میری عبادت سے تکبر کرتے ہیں عنقریب ذلیل ہو کر جہنم میں داخل ہوں گے۔‘‘ [ ترمذي، تفسیر القرآن، باب ومن سورۃ المؤمن : ۳۲۴۷، وصححہ في أبواب الدعوات، باب ما جاء في فضل الدعاء ]