وَأَن لَّوِ اسْتَقَامُوا عَلَى الطَّرِيقَةِ لَأَسْقَيْنَاهُم مَّاءً غَدَقًا
اور (یہ وحی کی گئی ہے) کہ اگر وہ راستے پر سیدھے رہتے تو ہم انھیں ضرور بہت وافر پانی پلاتے۔
وَ اَنْ لَّوِ اسْتَقَامُوْا عَلَى الطَّرِيْقَةِ ....: اس کا عطف ’’ اَنَّهُ اسْتَمَعَ نَفَرٌ مِّنَ الْجِنِّ ....‘‘ پر ہے اور ’’ وَ اَنْ لَّوِ اسْتَقَامُوْا ‘‘ کا اصل ’’وَأَنَّهُمْ لَوِاسْتَقَامُوْا‘‘ ہے، یعنی کہہ دے میری طرف وحی کی گئی ہے کہ جنوں کی ایک جماعت نے قرآن سنا… اور میری طرف یہ وحی کی گئی ہے کہ اگر یہ لوگ (یعنی قریش مکہ یا تمام بنی آدم اور جن) اصل راستے پر سیدھے چلتے رہتے تو ہم انھیں وافر پانی پلاتے۔ ’’ غَدَقًا ‘‘ کا معنی کثیر ہے۔ وافرپانی سے مراد وافر رزق ہے، کیونکہ زمین سے حاصل ہونے والی تمام برکات بارش ہی سے حاصل ہوتی ہیں۔ یہ وہی بات ہے جو اللہ تعالیٰ نے ایک اور مقام پر بیان فرمائی ہے : ﴿ وَ لَوْ اَنَّ اَهْلَ الْقُرٰى اٰمَنُوْا وَ اتَّقَوْا لَفَتَحْنَا عَلَيْهِمْ بَرَكٰتٍ مِّنَ السَّمَآءِ وَ الْاَرْضِ﴾ [ الأعراف:۹۶] ’’اور اگر ان بستیوں والے ایمان لے آتے اور تقویٰ اختیار کرتے تو ہم ان پر آسمان اور زمین سے برکات کھول دیتے۔‘‘ سورۂ نوح (۱۰ تا ۱۲) اور سورۂ مائدہ (۶۶) میں بھی یہی بات بیا ن ہوئی ہے۔