وَأَنَّا لَا نَدْرِي أَشَرٌّ أُرِيدَ بِمَن فِي الْأَرْضِ أَمْ أَرَادَ بِهِمْ رَبُّهُمْ رَشَدًا
اور یہ کہ بے شک ہم نہیں جانتے کیا ان لوگوں کے ساتھ جو زمین میں ہیں، کسی برائی کا ارادہ کیا گیا ہے، یا ان کے رب نے ان کے ساتھ کسی بھلائی کا ارادہ فرمایا ہے۔
وَ اَنَّا لَا نَدْرِيْ اَشَرٌّ اُرِيْدَ ....: اتنے سخت پہرے دیکھ کر جنوں نے سمجھ لیا کہ دو باتوں میں سے ایک ضرور ہے، یا تو اہل زمین کے ساتھ شر کا ارادہ کیا گیا ہے، یعنی کسی قوم پر اچانک عذاب آنے کا فیصلہ ہو چکا ہے اور خبروں پر پہرا لگ گیا ہے، تاکہ اس قوم کو وقت سے پہلے اطلاع نہ ہوجائے، یا اللہ تعالیٰ نے ان کی بھلائی اور ہدایت کا ارادہ کیا ہے، یعنی کوئی رسول مبعوث ہوا ہے جس کی طرف بھیجی جانے والی وحی کی حفاظت کے لیے یہ انتظام کیا گیا ہے، تاکہ شیطان نہ اس میں کوئی دخل دے سکیں اور نہ پہلے معلوم کرسکیں کہ پیغمبر کی طرف کیا وحی کی جا رہی ہے۔ جب وہ اس جستجو کے لیے نکلے کہ ان دو باتوں میں سے کون سی بات حق ہے تو انھیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو قرآن پڑھتے ہوئے سن کر معلوم ہو گیا کہ یہ بندوبست اسی رسول کی وجہ سے ہے۔ اس آیت میں جنوں کے اس گروہ کا حسنِ ادب ملاحظہ ہو کہ ارادۂ رشد کی نسبت اللہ تعالیٰ کی طرف کی ہے اور ارادۂ شر کی نسبت اس کی طرف نہیں کی۔