مِّمَّا خَطِيئَاتِهِمْ أُغْرِقُوا فَأُدْخِلُوا نَارًا فَلَمْ يَجِدُوا لَهُم مِّن دُونِ اللَّهِ أَنصَارًا
اپنے گناہوں ہی کی وجہ سے وہ غرق کیے گئے، پس آگ میں داخل کیے گئے، پھر انھوں نے اللہ کے سوا اپنے لیے کوئی مدد کرنے والے نہ پائے۔
1۔ مِمَّا خَطِيْٓـٰٔتِهِمْ اُغْرِقُوْا ....: یہ نوح علیہ السلام کا کلام نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ فرما رہے ہیں۔ جار مجرور پہلے لانے سے کلام میں حصر پیدا ہوگیا ہے، یعنی صرف اپنے گناہوں( کفر و معصیت) کی وجہ سے انھیں غرق کیا گیا۔ ان کے غرق ہونے کا تفصیلی واقعہ سورۂ ہود، سورۂ مومنون اور سورۂ عنکبوت وغیرہ میں مذکور ہے۔ ’’ فَاُدْخِلُوْا نَارًا ‘‘ پس وہ آگ میں داخل کیے گئے، ’’فاء‘‘ سے ظاہر ہو رہا ہے کہ غرق ہوتے ہی انھیں آگ میں داخل کر دیا گیا، یعنی قیامت کے دن جہنم میں جانے سے پہلے برزخ و قبر ہی میں وہ آگ میں داخل کر دیے گئے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے آلِ فرعون کے متعلق فرمایا : ﴿ وَ حَاقَ بِاٰلِ فِرْعَوْنَ سُوْٓءُ الْعَذَابِ (45) اَلنَّارُ يُعْرَضُوْنَ عَلَيْهَا غُدُوًّا وَّ عَشِيًّا وَ يَوْمَ تَقُوْمُ السَّاعَةُ اَدْخِلُوْا اٰلَ فِرْعَوْنَ اَشَدَّ الْعَذَابِ ﴾ [ المؤمن : 46،45 ] ’’اور آل فرعون کو برے عذاب نے گھیر لیا جو آگ ہے، اس پر صبح و شام پیش کیے جاتے ہیں اور جس دن قیامت قائم ہوگی، آل فرعون کو سخت ترین عذاب میں داخل کرو۔‘‘ خلاصہ یہ کہ نوح علیہ السلام کی قوم اور آل فرعون کو پہلے پانی میں غرق کیا گیا، پانی کے عذاب کے بعد اس کا الٹ یعنی آگ کا عذاب قبر ہی میں شروع ہو گیا، پھر قیامت کے دن جہنم کے ’’ اَشَدَّ الْعَذَابِ ‘‘ میں داخل کیے جائیں گے۔ یہ آیت اور سورۂ مومن کی آیت عذابِ قبر کی زبردست دلیلیں ہیں۔ 2۔ فَلَمْ يَجِدُوْا لَهُمْ مِّنْ دُوْنِ اللّٰهِ اَنْصَارًا : یعنی اللہ کے عذاب سے نہ انھیں کوئی سردار بچا سکا اور نہ ان کے پاک پنج تنوں میں سے کوئی ان کی مدد کر سکا۔