وَقَدْ خَلَقَكُمْ أَطْوَارًا
حالانکہ یقیناً اس نے تمھیں مختلف حالتوں میں پیدا کیا۔
وَ قَدْ خَلَقَكُمْ اَطْوَارًا : یعنی حقیقت حال یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی عظمت کے دلائل خود تمھاری ذات میں موجود ہیں، اس نے تمھیں مختلف اطوار میں پیدا فرمایا ہے۔ پہلے مٹی، پھر نطفہ، پھر علقہ، پھر مضغہ، پھر ہڈیاں، پھر ان پر گوشت، پھر بہترین شکل و صورت کا انسان، جس کا ہر روز نئے سے نیا طور (انداز) ہوتا ہے، بچپن، جوانی، بڑھاپا، پھر موت، اتنے اطوار کے بعد دوبارہ پیدا کرنا اس کے لیے کیا مشکل ہے!؟ اگر تم ایسے خالق کی عظمت کا خیال نہ کرو اور اس کے حضور پیش ہونے کو محال سمجھتے رہو تو کتنے تعجب کی بات ہے۔ یہی بات تفصیل کے ساتھ سورۂ حج (6،5) اور سورۂ مومنون (۱۴تا۱۶) میں بھی بیان ہوئی ہے۔ ’’خَلَقَكُمْ اَطْوَارًا‘‘ کا دوسرا مطلب یہ ہے کہ تمھیں مختلف انداز میں پیدا فرمایا کہ کوئی ایک شخص بھی شکل و صورت، قد و قامت، رنگ روپ، آواز اور ذہنی صلاحیت، غرض کسی بھی چیز میں دوسرے سے نہیں ملتا۔ یہی مفہوم سورۂ روم (۲۲) میں بیان ہوا ہے۔