يُرْسِلِ السَّمَاءَ عَلَيْكُم مِّدْرَارًا
وہ تم پر بہت برستی ہوئی بارش اتارے گا۔
يُرْسِلِ السَّمَآءَ عَلَيْكُمْ مِّدْرَارًا ....: نوح علیہ السلام نے اپنی قوم کو بتایا کہ اللہ تعالیٰ پر ایمان لا کر اس سے بخشش مانگنے سے صرف تمھاری آخرت ہی درست نہیں ہو گی بلکہ اللہ تعالیٰ دنیا میں بھی بے شمار نعمتیں عطا فرمائے گا، وہ تم پر موسلا دھار بارشیں برسائے گا، قسم قسم کے مالوں کے ساتھ اور بیٹوں کے ساتھ تمھاری مدد کرے گا اور تمھیں باغات اور نہریں عطا فرمائے گا۔ نوح علیہ السلام کے علاوہ ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور دوسرے انبیاء علیھم السلام نے بھی اپنی اپنی قوم کو ایمان و استغفار سے آخرت میں حاصل ہونے والی نعمتوں کے علاوہ ان سے حاصل ہونے والی دنیوی برکتیں بھی بتائیں۔ تفصیل کے لیے دیکھیے سورۂ ہود (۳، ۵۲)، مائدہ (۶۶) اور سورۂ اعراف (۹۶)۔ ان آیات سے معلوم ہوا کہ بارش کی ضرورت ہو یا مال و اولاد کی یا کسی بھی نعمت کی ضرورت ہو تو اللہ تعالیٰ سے استغفار کرنا چاہیے۔ اس مقام پر تفسیر طبری اور تفسیر ابن کثیر میں عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کا واقعہ لکھا ہوا ہے کہ وہ استسقا کے لیے نکلے تو انھوں نے استغفار سے زیادہ کچھ نہیں کیا اور واپس آگئے۔ لوگوں نے پوچھا : ’’امیر المومنین! ہم نے آپ کو بارش کی دعا کرتے ہوئے نہیں دیکھا۔‘‘ تو فرمایا: ’’میں نے آسمان کو حرکت دینے والی ان چیزوں کے ذریعے سے بارش طلب کی ہے جن کے ذریعے سے بارش کا سوال کیا جاتا ہے۔‘‘ پھر یہ آیت اور سورۂ ہود کی آیت (۵۲) : ﴿وَ يَزِدْكُمْ قُوَّةً اِلٰى قُوَّتِكُمْ ﴾پڑھی۔ تفسیر طبری میں عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کا یہ واقعہ شعبی سے روایت کیا گیا ہے، جن کی ملاقات عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے ثابت نہیں، اس لیے یہ واقعہ پایۂ ثبوت کو نہیں پہنچتا اور امیر المومنین سے امید بھی نہیں کہ وہ بارش کی دعا کے لیے نکلے ہوں اور مسنون طریقہ پر نماز اور دعا کے بغیر صرف استغفار کرکے واپس آگئے ہوں۔ صحیح بخاری (۱۰۱۰) میں عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کا بارش کی دعا کرنا اور عباس رضی اللہ عنہ سے دعا کروانا موجود بھی ہے۔ ہاں، یہ بات درست ہے کہ دعائے استسقا میں بھی استغفار زیادہ سے زیادہ کرنا چاہیے، مگر ہر مقام پر استغفار اس طریقے سے کیا جائے گا جس طریقے سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا ہے۔