وَإِنِّي كُلَّمَا دَعَوْتُهُمْ لِتَغْفِرَ لَهُمْ جَعَلُوا أَصَابِعَهُمْ فِي آذَانِهِمْ وَاسْتَغْشَوْا ثِيَابَهُمْ وَأَصَرُّوا وَاسْتَكْبَرُوا اسْتِكْبَارًا
اور بے شک میں نے جب بھی انھیں دعوت دی، تاکہ تو انھیں معاف کردے، انھوں نے اپنی انگلیاں اپنے کانوں میں ڈال لیں اور اپنے کپڑے اوڑھ لیے اور اڑ گئے اور تکبر کیا، بڑا تکبر کرنا۔
1۔ وَ اِنِّيْ كُلَّمَا دَعَوْتُهُمْ لِتَغْفِرَ لَهُمْ ....: اس آیت میں تھوڑا سا حصہ حذف ہے، یعنی میں نے جب بھی انھیں دعوت دی کہ (ایمان لے آئیں، تاکہ اس کے نتیجے میں) تو انھیں معاف فرما دے تو انھوں نے کانوں میں انگلیاں ٹھونس لیں، منہ سرکپڑوں میں لپیٹ لیے اور اپنی بات پر اڑ گئے…۔ یعنی ان کے پاس نوح علیہ السلام کی دعوت کو ردّ کرنے کا کوئی جواز نہ تھا اور نہ ہی آپ کے دلائل کا سامنا کرنے کی ہمت تھی، ادھر وہ شرک چھوڑنے پر بھی تیار نہیں تھے اور نہ اپنی بڑائی سے دستبردار ہونے پر تیار تھے۔ نوح علیہ السلام کی بات ماننے میں ان کی سرداری، بڑائی اور چودھراہٹ میں فرق آتا تھا، اس لیے ان کی کوشش یہ تھی کہ نہ نوح علیہ السلام کی بات کانوں میں پڑے اور نہ ان کی نظر ان پر پڑے۔ غرض کسی صورت بھی ان سے آمنا سامنا نہ ہونے پائے، مبادا وہ پھر تبلیغ شروع کر دیں، اس لیے جیسے بھی ہو سکے ہر صورت منہ سر چھپا کر ان کے پاس سے نکل جائیں۔ 2۔ وَ اسْتَكْبَرُوا اسْتِكْبَارًا : نوح علیہ السلام کی قوم کا تکبر یہ تھا کہ انھوں نے حق بات ماننے سے انکار کر دیا تھا۔ عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : (( لاَ يَدْخُلُ الْجَنَّةَ مَنْ كَانَ فِيْ قَلْبِهِ مِثْقَالُ ذَرَّةٍ مِّنْ كِبْرٍ، قَالَ رَجُلٌ إِنَّ الرَّجُلَ يُحِبُّ أَنْ يَكُوْنَ ثَوْبُهُ حَسَنًا وَنَعْلُهُ حَسَنَةً، قَالَ إِنَّ اللَّهَ جَمِيْلٌ يُحِبُّ الْجَمَالَ الْكِبْرُ بَطَرُ الْحَقِّ وَغَمْطُ النَّاسِ )) [مسلم، الإیمان، باب تحریم الکبر وبیانہ:۹۱] ’’جس کے دل میں ایک ذرّے کے برابر تکبر ہو وہ جنت میں داخل نہیں ہو گا۔‘‘ ایک آدمی نے کہا : ’’آدمی اس بات کو پسند کرتا ہے کہ اس کا کپڑا اچھا ہو اور اس کا جوتا اچھا ہو (تو کیا یہ بھی تکبر ہے؟)‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’(یہ تکبر نہیں) اللہ خوبصورت ہے، خوبصورتی کو پسند کرتا ہے۔ تکبر تو حق سے انکار کر دینا اور لوگوں کو حقیر جاننا ہے۔‘‘