فَمَالِ الَّذِينَ كَفَرُوا قِبَلَكَ مُهْطِعِينَ
پھر ان لوگوں کو جنھوں نے کفر کیا، کیا ہے کہ تیری طرف دوڑتے چلے آنے والے ہیں۔
فَمَالِ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا ....: ’’ مُهْطِعِيْنَ ‘‘ ’’أَهْطَعَ يُهْطِعُ‘‘ (افعال) سے اسم فاعل ہے، تیزی سے دوڑنے والے۔ ’’ عِزِيْنَ ‘‘ جمع ہے ’’عِزَةٌ‘‘ کی، جو اصل میں ’’عِزَوَةٌ‘‘ یا ’’عِزَهَةٌ‘‘ تھا، ٹولیاں، گروہ۔ کفار رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو مذاق کرنے کے لیے ٹولیاں بنا بنا کر کبھی دائیں طرف سے دوڑے چلے آتے، کبھی بائیں طرف سے، وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تکذیب کرتے، آخرت کو بھی جھٹلاتے اور مذاق سے کہتے کہ اگر بالفرض کوئی جنت ہے بھی تو وہ بھی ہمارے ہی لیے ہے، کیونکہ دنیا میں بھی ہمیں ہی زیادہ نعمتیں ملی ہیں ۔ اللہ تعالیٰ نے ان کے اس طرح آنے پر تعجب کا اظہار فرمایا اور فرمایا، کیا ان میں سے ہر شخص اپنے آپ کو اتنا اونچا سمجھنے لگ گیا ہے کہ وہ نعمت والی جنت میں داخل ہونے کی طمع رکھتا ہے؟ ہر گز نہیں! ہم نے انھیں جس چیز سے پیدا کیا ہے اسے وہ خود بھی جانتے ہیں، حقیر قطرے سے پیدا ہونے والے انسان کو یہ تکبر بھلا زیب دیتا ہے؟ اس مضمون کے لیے دیکھیے سورۂ مرسلات (۲۰ تا ۲۳) اور سورۂ طارق (۵تا ۷)۔ ان آیات سے تین باتیں مقصود ہیں، ایک انسان کو تکبر سے باز رکھنا اور یہ یاد دلانا کہ تم منی جیسی حقیر چیز سے پیدا ہو کر اتنے بڑ ے بن رہے ہو کہ جنت میں داخل ہونے کو اپنا حق سمجھ رہے ہو، حالانکہ جنت کے قابل تو رسول کی اطاعت سے ہو گے جس پر ٹولیاں بنا کر حملہ آور ہو رہے ہو۔ دوسری کفار کے اس طمع کا ردّ کہ وہ جنت میں جائیں گے، گویا بتایا جا رہا ہے کہ ہم نے تمھیں بھی اسی چیز سے پیدا کیا جس سے دوسروں کو پیدا کیا ہے، جب سب کی پیدائش ایک جیسی ہے تو تم عمل کے بغیر جنت میں داخل ہونے کے امیدوار کیسے بن گئے ؟ تیسری بات دوبارہ زندہ کرنے کی دلیل پیش کرنا ہے کہ جب ہم نے اس حقیر پانی سے تمھیں بنا لیا تو دوبارہ بنانا کون سا مشکل کام ہے؟ جیسے فرمایا : ﴿ اَلَمْ يَكُ نُطْفَةً مِّنْ مَّنِيٍّ يُّمْنٰى﴾ [ القیامۃ : ۳۷ ] ’’کیا وہ منی کا ایک قطرہ نہیں تھا جو گرایا جاتا ہے۔‘‘