وَإِنَّهُ لَحَقُّ الْيَقِينِ
اور بلاشبہ وہ یقیناً ثابت شدہ یقین ہے۔
وَ اِنَّهٗ لَحَقُّ الْيَقِيْنِ : ’’حَقٌّ‘‘ جو ثابت ہو اور ’’ الْيَقِيْنِ‘‘ وہ بات جس میں کوئی شک نہ ہو۔ قرآن مجید سے یقین کے تین درجے معلوم ہوتے ہیں، پہلا علم الیقین، وہ یقین جو خبر وغیرہ سے معلوم ہو جائے، جیسے فرمایا : ﴿ كَلَّا لَوْ تَعْلَمُوْنَ عِلْمَ الْيَقِيْنِ (5) لَتَرَوُنَّ الْجَحِيْمَ﴾ [التکاثر:6،5]’’ہرگز نہیں، کاش! تم یقینی جاننا جان لیتے کہ تم ضرور جہنم کو دیکھو گے۔‘‘ دوسرا عین الیقین، وہ یقین جو آنکھوں کے دیکھنے سے حاصل ہو۔ آنکھوں سے دیکھی ہوئی بات کا یقین سنی ہوئی بات کے یقین سے قوی ہوتا ہے، جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : (( لَيْسَ الْخَبَرُ كَالْمُعَايَنَةِ )) [مسند أحمد :1؍215، ح : ۱۸۴۲۔ صحیح الجامع الصغیر: ۵۳۷۳ ] ’’سننا دیکھنے کی طرح نہیں۔‘‘ ابراہیم علیہ السلام نے ’’ رَبِّ اَرِنِيْ كَيْفَ تُحْيِ الْمَوْتٰى ‘‘ کہہ کر یقین کے اس مرتبہ کی درخواست کی تھی۔ (دیکھیے بقرۃ : ۲۶۰) تیسرا حق الیقین، وہ یقین جو کسی چیز کو خود استعمال کرنے سے حاصل ہوتا ہے۔ اس وقت وہ ہر طرح سے پختہ اور ثابت ہو جاتا ہے۔ یہ پہلے دونوں درجوں سے بڑھ کر ہے۔ ان تینوں درجوں کی مثال یہ ہے کہ اہلِ ایمان کو اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کے بتانے سے جنت کا یقین ہے، یہ علم الیقین ہے۔ جب میدان محشر میں جنت قریب لائی جائے گی (دیکھیے شعراء:۹۰) اور وہ اپنی آنکھوں سے اسے دیکھ لیں گے تو یہ عین الیقین ہے۔ پھر جب اس میں داخل ہوں گے اور اس کی نعمتوں سے لذت اٹھائیں گے تو انھیں حق الیقین حاصل ہو گا۔ فرمایا یہ قرآن حق الیقین ہے، یعنی قرآن میں جو علوم و معارف اور حقائق بیان ہوئے ہیں، جو شخص ان کی لذت سے آشنا ہو جائے اس کے لیے یہ ہر طرح سے ثابت شدہ یقین ہے۔ (خلاصہ بدائع التفسیر و تفسیر عبد الرحمن السعدی)