لِنَجْعَلَهَا لَكُمْ تَذْكِرَةً وَتَعِيَهَا أُذُنٌ وَاعِيَةٌ
تاکہ ہم اسے تمھارے لیے ایک یاد دہانی بنادیں اور یاد رکھنے والا کان اسے یاد رکھے۔
لِنَجْعَلَهَا لَكُمْ تَذْكِرَةً : ’’ لِنَجْعَلَهَا ‘‘ میں ’’هَا‘‘ ضمیر اس واقعہ کی طرف جا رہی ہے، یعنی ’’تاکہ ہم اس واقعہ کو تمھارے لیے ایک نصیحت اور یاد گار بنا دیں۔‘‘ نوح علیہ السلام کی قوم کا یہ واقعہ پشت در پشت نقل ہو کر آرہا تھا اور عرب کے لوگ اچھی طرح اس سے واقف تھے۔ بعض مفسرین نے اس ضمیر ’’هَا‘‘ سے مراد ’’ الْجَارِيَةِ ‘‘ (کشی) بھی لیا ہے، مگر اس کے بعد آنے والے الفاظ ’’ وَ تَعِيَهَا اُذُنٌ وَّاعِيَةٌ ‘‘ (اور اسے یاد رکھنے والا کان یاد رکھے) سے ظاہر ہو رہا ہے کہ ضمیر سے مراد ’’واقعہ‘‘ہے، کیونکہ ’’وَعٰي يَعِيْ‘‘ کا معنی سوچ سمجھ کر سننا اور یاد رکھنا ہوتا ہے۔ ’’ اُذُنٌ ‘‘ (کان) سے مراد کانوں والے انسان ہیں، جو واقعہ کو سنیں تو اس سے عبرت پکڑیں کہ آخرت کے انکار اور اللہ کے رسولوں کو جھٹلانے کا انجام کتنا ہو لناک ہوتا ہے۔