يَوْمَ يُكْشَفُ عَن سَاقٍ وَيُدْعَوْنَ إِلَى السُّجُودِ فَلَا يَسْتَطِيعُونَ
جس دن پنڈلی کھولی جائے گی اور وہ سجدے کی طرف بلائے جائیں گے تو وہ طاقت نہیں رکھیں گے۔
1۔ يَوْمَ يُكْشَفُ عَنْ سَاقٍ....: ’’ يَوْمَ ‘‘ یا تو پچھلی آیت ’’ فَلْيَاْتُوْا بِشُرَكَآىِٕهِمْ ‘‘ کے متعلق ہے، یعنی دنیا میں تو ہو سکتا ہے کہ یہ لوگ اللہ تعالیٰ کے جھوٹ موٹ شریک گنوا دیں جو ان کی رہائی کے ذمہ دار بننے کا دعویٰ کریں، مگر اس کا کوئی فائدہ نہیں۔ اگر سچے ہیں تو اس دن اپنے شریک سامنے لائیں جس دن پنڈلی سے پردہ ہٹایا جائے گا اور لوگوں کو سجدے کے لیے بلایا جائے گا تو یہ لوگ سجدہ نہیں کر سکیں گے۔ یا یہ ’’ اِنَّ لِلْمُتَّقِيْنَ عِنْدَ رَبِّهِمْ جَنّٰتِ النَّعِيْمِ ‘‘ کے متعلق ہے، یعنی متقین کو نعمت والی جنتیں اس دن ملیں گی جب پنڈلی سے پردہ ہٹایا جائے گا۔ 2۔ ’’ يَوْمَ يُكْشَفُ عَنْ سَاقٍ ‘‘ کا ایک معنی تو وہ ہے جو ان لفظوں کا سادہ ترجمہ ہے اور خود بخود ظاہر ہو رہا ہے اور ایک وہ ہے جو ان لفظوں کے سادہ ترجمہ سے ہٹ کر کیا گیا ہے اور جو لغت عرب کا ایک محاورہ ہے۔ وہ معنی جو لفظوں کا سادہ ترجمہ ہے اور خود بخود ظاہر ہو رہا ہے یہ ہے کہ ’’جس دن پنڈلی کھولی جائے گی۔‘‘ یعنی اللہ تعالیٰ اپنی پنڈلی ظاہر فرمائے گا اور لوگوں کو سجدے کے لیے بلایا جائے گا۔ خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس آیت کا یہی مطلب بیان فرمایا ہے اور صحیح سند کے ساتھ آپ سے یہی مروی ہے، چنانچہ صحیح بخاری میں ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ((يَكْشِفُ رَبُّنَا عَنْ سَاقِهِ فَيَسْجُدُ لَهٗ كُلُّ مُؤْمِنٍ وَ مُؤْمِنَةٍ وَ يَبْقٰی مَنْ كَانَ يَسْجُدُ فِي الدُّنْيَا رِيَاءً وَ سُمْعَةً فَيَذْهَبُ لِيَسْجُدَ فَيَعُوْدُ ظَهْرُهٗ طَبَقًا وَاحِدًا )) [بخاري، التفسیر، باب : ﴿یوم یکشف عن ساق﴾ : ۴۹۱۹ ] ’’ہمارا رب اپنی پنڈلی کھولے گا تو ہر مومن مرد اور مومن عورت اس کو سجدہ کریں گے اور وہ شخص باقی رہ جائے گا جو دنیا میں دکھانے اور سنانے کے لیے سجدہ کرتا تھا، وہ سجدہ کرنے لگے گا تو اس کی پیٹھ ایک طبق ہوجائے گی(یعنی دوہری نہیں ہو سکے گی)۔‘‘ اس حدیث میں صاف الفاظ موجود ہیں کہ اللہ تعالیٰ اپنی پنڈلی کھولے گا، بلکہ صحیح بخاری کے ایک اور مقام پر ہے کہ ہر قوم جس کسی کی پرستش کرتی تھی اس کے پیچھے چلی جائے گی، صلیب والے صلیب کے پیچھے، بتوں والے بتوں کے پیچھے اور دوسرے معبودوں والے اپنے اپنے معبودوں کے پیچھے چلے جائیں گے، صرف وہ لوگ رہ جائیں گے جو صرف اللہ کی عبادت کرتے تھے، خواہ نیک ہوں یا بد وہ اللہ تعالیٰ کا انتظار کر رہے ہوں گے، اللہ ان سے پوچھے گا : (( هَلْ بَيْنَكُمْ وَبَيْنَهٗ آيَةٌ تَعْرِفُوْنَهُ؟ فَيَقُوْلُوْنَ السَّاقُ فَيَكْشِفُ عَنْ سَاقِهِ فَيَسْجُدُ لَهُ )) [بخاري، التوحید، باب قول اللّٰہ تعالٰی : ﴿وجوہ یومئذ ناظرۃ....﴾ : ۷۴۳۹ ] ’’کیا تمھارے اور تمھارے رب کے درمیان کوئی نشانی ہے جسے تم پہچانتے ہو؟‘‘ وہ کہیں گے : ’’پنڈلی ہے۔‘‘ تو اللہ تعالیٰ اپنی پنڈلی کھولے گا اور ہر مومن اسے سجدہ کرے گا۔‘‘ اس سے معلوم ہوا کہ پنڈلی کھولنے سے مراد یہی ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنی پنڈلی کھولے گا اور یہ اللہ تعالیٰ کے درمیان اور اہل ایمان کے درمیان طے شدہ نشانی ہو گی اور اس نشانی کو دیکھ کر اہل ایمان رب تعالیٰ کے سامنے سجدے میں گر جائیں گے۔ یہ حدیث صحیح بخاری کے علاوہ حدیث کی دوسری بہت سی کتابوں میں بھی موجود ہے۔ اتنی اعلیٰ درجے کی صحیح سند کے ساتھ خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے آیت کی تفسیر آنے کے بعد کسی اور تفسیر کی نہ ضرورت رہتی ہے اور نہ گنجائش، مگر چونکہ بہت سے مفسرین نے اس آیت کی ایک اور تفسیر کی ہے اس لیے وہ بھی ذکر کی جاتی ہے۔ ان مفسرین کا کہنا یہ ہے کہ ’’ کشفِ ساق ‘‘ لغت عرب کا ایک محاورہ ہے، جو شدت سے کنایہ ہے، یعنی ’’ يَوْمَ يُكْشَفُ عَنْ سَاقٍ ‘‘ کا مطلب یہ ہے کہ قیامت کا دن بہت سخت ہو گا، کیونکہ جب کوئی سختی یا مشکل پیش آتی ہے تو آدمی پنڈلی سے کپڑا اٹھا کر کمر کس لیتا ہے۔ یہ تفسیر ابن عباس رضی اللہ عنھما سے منقول ہے اور بعض تابعین جیسے مجاہد، عکرمہ اور ابراہیم نخعی رحمھم اللہ وغیرہ سے بھی آئی ہے۔ یہ تفسیر اگرچہ درست ہے اور لغت عرب میں یہ محاورہ استعمال بھی ہوتا ہے، مگر پہلی تفسیر (یعنی قیامت کے دن اللہ تعالیٰ اپنی پنڈلی کھولے گا) میں قرآن کے صریح الفاظ کو ملحوظ رکھا گیا ہے اور یہ تفسیر اس ذات گرامی نے کی ہے جس پر قرآن نازل ہوا تھا، اس لیے یہی مقدم ہے۔ البتہ دونوں تفسیروں میں کوئی تعارض نہیں، اس دن اللہ تعالیٰ کی پنڈلی بھی ظاہر ہو گی اور اس دن کی شدت میں بھی کوئی شبہ نہیں۔خود ابن عباس رضی اللہ عنھما نے اللہ تعالیٰ کی پنڈلی ظاہر ہونے کا کبھی انکار نہیں فرمایا اور نہ دیگر صحابہ میں سے کسی نے ان الفاظ کا انکار کیا ہے جو اللہ تعالیٰ کے متعلق اس سلسلے میں قرآن یا حدیث میں آئے ہیں۔ قرآن مجید میں چونکہ یہ صراحت نہیں کہ اللہ کی پنڈلی ظاہر ہوگی بلکہ صرف پنڈلی کا لفظ ہے، اس لیے ابن عباس رضی اللہ عنھما نے اس کا مفہوم یہ لیا کہ کشف ساق سے اس دن کی شدت مراد ہے اور یہ مراد لینا لغت عرب کے بالکل مطابق ہے، مگر ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے صراحت نقل فرمائی کہ اللہ تعالیٰ کی پنڈلی ظاہر ہو گی، اس لیے مقدم وہی مفہوم ہو گا جو خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان فرمایا، اگرچہ قیامت کے دن کی شدت بھی اپنی جگہ حقیقت ہے۔ افسوس تو ان لوگوں پر ہے جنھوں نے صاف کہہ دیا کہ اللہ تعالیٰ کی پنڈلی ظاہر نہیں ہو گی، نہ اس کی پنڈلی ہے۔ ان لوگوں نے اس سے بڑھ کر اس قسم کے ان تمام الفاظ کا انکار کر دیا جو قرآن میں آئے ہیں، مثلاً ہاتھ، چہرہ ، آنکھ ، پاؤں وغیرہ اور کہا کہ اگر ہم یہ مانیں تو اللہ تعالیٰ کا جسم لازم آتا ہے اور اس کا ہمارے جیسا ہونا لازم آتا ہے، جب کہ اس نے خود فرمایا : ﴿لَيْسَ كَمِثْلِهٖ شَيْءٌ﴾ [ الشورٰی : ۱۱] ’’اس کی مثل کوئی چیز نہیں۔‘‘ یہ لوگ ان تمام الفاظ کی کوئی نہ کوئی تاویل کرتے اور ان صفات کے ماننے والوں کو ’’مشبہہ‘‘ قرار دیتے ہیں۔ حالانکہ ان کی اس بات کا جواب خود اسی آیت میں موجود ہے جسے وہ اپنی دلیل کے طور پر پیش کرتے ہیں، اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿ لَيْسَ كَمِثْلِهٖ شَيْءٌ وَ هُوَ السَّمِيْعُ الْبَصِيْرُ﴾ [ الشورٰی : ۱۱ ] ’’اس کی مثل کوئی چیز نہیں اور وہ سننے والا، سب کچھ دیکھنے والا ہے۔‘‘ یعنی یہ بھی مانو کہ اللہ کی مثل کوئی چیز نہیں اور یہ بھی مانو کہ وہ سمیع بھی ہے اور بصیر بھی۔ یہ خیال کر کے اس کے سمیع و بصیر ہونے کا انکار نہ کر دینا کہ ہم بھی سمیع اور بصیر ہیں، اگر اسے سمیع و بصیر مانا تو اس کا ہمارے مشابہ ہونا لازم آئے گا۔ نہیں، اس کا سمیع و بصیر ہونا تمھارے سمیع و بصیر ہونے کے مشابہ نہیں ہے۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ کی پنڈلی، اس کا چہرہ، اس کا قدم اور جو کچھ اس نے خود اپنے متعلق بتایا سب برحق ہے، مگر اس کی پنڈلی مخلوق کی پنڈلی کے مشابہ نہیں، نہ کوئی اور صفت مخلوق کی صفت کے مشابہ ہے، وہ اسی طرح ہے جس طرح اس کی شان کے لائق ہے۔ خلاصہ یہ ہے کہ صفاتِ الٰہی والی آیات و احادیث کے متعلق سلف صالحین کا طریقہ یہی ہے کہ ان کے ظاہر الفاظ پر ایمان لانا چاہیے اور ان کی کیفیت اللہ کے سپرد کر دینی چاہیے۔جن لوگوں نے اللہ تعالیٰ کی ان صفات کا انکار کیا ہے درحقیقت وہ خود تشبیہ میں مبتلا ہیں کہ انھوں نے اللہ کی پنڈلی، اس کے چہرے اور دوسری صفات کو اپنے اعضا جیسا سمجھا اور یہ سمجھ کر ان سے انکار کر دیا۔ اگر وہ ان صفات کو اپنی صفات کی مثل خیال نہ کرتے تو کبھی انکار نہ کرتے۔