فَلَمَّا رَأَوْهُ زُلْفَةً سِيئَتْ وُجُوهُ الَّذِينَ كَفَرُوا وَقِيلَ هَٰذَا الَّذِي كُنتُم بِهِ تَدَّعُونَ
پس جب وہ اس کو قریب دیکھیں گے تو ان لوگوں کے چہرے بگڑ جائیں گے جنھوں نے انکار کیا اور کہا جائے گا یہی ہے وہ جو تم مانگا کرتے تھے۔
فَلَمَّا رَاَوْهُ زُلْفَةً سِيْٓـَٔتْ....: ’’ زُلْفَةً ‘‘ ’’زَلَفَ يَزْلُفُ‘‘ (ن) سے اسم مصدر بمعنی اسم فاعل ہے، قریب۔ ’’ تَدَّعُوْنَ ‘‘ ’’دَعَا يَدْعُوْ‘‘ کے باب افتعال سے فعل مضارع ہے، جس میں تائے افتعال کو دال سے بدل کر دال کو دال میں ادغام کر دیا ہے۔ اب وہ جس قیامت کو مذاق سمجھ رہے ہیں اور جس کا مطالبہ بڑے دھڑلے سے بار بار کر رہے ہیں، جب قریب آتی ہوئی دیکھیں گے تو سب ہنسی مذاق اور شیخی شوخی بھول جائیں گے، خوف اور دہشت سے ان کے چہرے بگڑ جائیں گے اور کہا جائے گا یہی ہے وہ قیامت جس کا تم مطالبہ کیا کرتے تھے۔