أَفَمَن يَمْشِي مُكِبًّا عَلَىٰ وَجْهِهِ أَهْدَىٰ أَمَّن يَمْشِي سَوِيًّا عَلَىٰ صِرَاطٍ مُّسْتَقِيمٍ
تو کیا وہ شخص جو اپنے منہ کے بل الٹا ہو کر چلتا ہے، زیادہ ہدایت والا ہے، یا وہ جو سیدھا ہو کر درست راستے پر چلتا ہے؟
اَفَمَنْ يَّمْشِيْ مُكِبًّا عَلٰى وَجْهِهٖ....: ’’ مُكِبًّا ‘‘ ’’أَكَبَّ يُكِبُّ إِكْبَابًا‘‘ (افعال) اُوندھا گرنا۔ مزیدفیہ ہونے کے باوجود یہ باب لازم ہے، اس کا مجرد ’’كَبَّ يَكُبُّ كَبًّا‘‘ (ن) متعدی ہے، جس کا معنی کسی کو اُوندھا گرانا ہے۔ ’’ اَهْدٰى ‘‘ ’’هَدٰي يَهْدِيْ هِدَايَةً‘‘ (ض) سے اسم تفضیل ہے جو عموماً اسم فاعل کے معنی میں آتا ہے، مگر کبھی کبھی اسم مفعول کے معنی میں بھی آجاتا ہے اور یہاں یہ اسم مفعول کے معنی میں ہے، اس لیے اس کا معنی زیادہ ہدایت دینے والا نہیں بلکہ زیادہ ہدایت یافتہ ہے۔ یہ موحد مومن اور مشرک کافر کی مثال ہے۔ کافر سیدھے راستے پر چلنے کے بجائے گمراہی کے گڑھوں میں پڑ جانے کی وجہ سے منہ کے بل گرتا پڑتا چلا جا رہا ہوتا ہے۔ ایسا شخص منزل مقصود پر کیسے پہنچ سکتا ہے؟ اس کے برعکس مومن توحید و سنت کے صراطِ مستقیم پر سیدھا ہو کر چل رہا ہوتا ہے، اسے دائیں بائیں اور سامنے ہر طرف سے اپنا راستہ اور اس کا گردو پیش نظر آرہا ہوتا ہے۔ وہ یقیناً اپنی منزل مقصود تک پہنچ جائے گا جو جنت ہے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے ایک جگہ کافروں کے متعلق فرمایا : ﴿وَ نَحْشُرُهُمْ يَوْمَ الْقِيٰمَةِ عَلٰى وُجُوْهِهِمْ عُمْيًا وَّ بُكْمًا وَّ صُمًّا مَاْوٰىهُمْ جَهَنَّمُ﴾ [ بني إسرائیل : ۹۷ ] ’’اور قیامت کے دن ہم انھیں ان کے چہروں پر اندھے اور گونگے اور بہرے اٹھائیں گے، ان کا ٹھکانا جہنم ہے۔‘‘ اور حقیقت یہ ہے کہ آخرت میں ان کے اوندھے منہ اٹھائے جانے کا سبب یہی ہے کہ دنیا میں بھی وہ الٹے ہی چلتے تھے، سیدھے ہو کر راہِ راست پر چلنا انھیں گوارا نہ تھا۔