سورة الملك - آیت 19

أَوَلَمْ يَرَوْا إِلَى الطَّيْرِ فَوْقَهُمْ صَافَّاتٍ وَيَقْبِضْنَ ۚ مَا يُمْسِكُهُنَّ إِلَّا الرَّحْمَٰنُ ۚ إِنَّهُ بِكُلِّ شَيْءٍ بَصِيرٌ

ترجمہ عبدالسلام بھٹوی - عبدالسلام بن محمد

اور کیا انھوں نے اپنے اوپر پرندوں کو اس حال میں نہیں دیکھا کہ وہ پر پھیلائے ہوئے ہوتے ہیں اور کبھی سکیڑ لیتے ہیں۔ رحمان کے سوا انھیں کوئی تھام نہیں رہا ہوتا۔ یقیناً وہ ہر چیز کو خوب دیکھنے والا ہے۔

تفسیر القرآن کریم (تفسیر عبدالسلام بھٹوی) - حافظ عبدالسلام بن محمد

اَوَ لَمْ يَرَوْا اِلَى الطَّيْرِ فَوْقَهُمْ صٰٓفّٰتٍ....: اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے اپنی ایک اور قدرت بیان فرمائی کہ عام مشاہدے میں مادی چیزیں جو وزن رکھتی ہیں وہ نیچے کی طرف میلان رکھتی ہیں، مگر پرندے وزن رکھنے کے باوجود فضا میں اڑتے پھرتے ہیں۔ اڑتے وقت اکثر وہ پر پھیلائے ہوئے ہوتے ہیں، کبھی سکیڑ بھی لیتے ہیں، انھیں تھامنے والا اس رحمان (بے حد مہربان) کے علاوہ کوئی نہیں۔ ’’صٰٓفّٰتٍ ‘‘ اسم فاعل ہے جو دوام پر دلالت کرتا ہے اور ’’ يَقْبِضْنَ ‘‘ فعل مضارع ہے جو تجدد پر دلالت کرتا ہے۔ فضا کی بلندی میں اڑنے والے پرندے اکثر پر پھیلائے ہوئے اڑ رہے ہوتے ہیں، کبھی پر مار بھی لیتے ہیں۔ اِنَّهٗ بِكُلِّ شَيْءٍ بَصِيْرٌ: یقیناً وہ ہر چیز کو خوب دیکھنے والا ہے۔ فضا میں اڑتے ہوئے پرندوں کو وہی تھامے ہوئے ہے، ہوا میں معلق زمین کو گرنے سے بچانے والا وہی ہے اور آسمانوں کو ستونوں کے بغیر ان کی جگہ قائم رکھنے والا بھی وہی ہے۔ غرض اس کائنات کی ہر چیز کی مسلسل نگرانی اور دیکھ بھال وہی کر رہا ہے اور وہی اسے تھامے ہوئے ہے، اگر وہ ایک لمحہ کے لیے توجہ ہٹا لے تو سب کچھ فنا ہو جائے، جیسا کہ فرمایا : ﴿ اِنَّ اللّٰهَ يُمْسِكُ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضَ اَنْ تَزُوْلَا وَ لَىِٕنْ زَالَتَا اِنْ اَمْسَكَهُمَا مِنْ اَحَدٍ مِّنْۢ بَعْدِهٖ اِنَّهٗ كَانَ حَلِيْمًا غَفُوْرًا﴾ [ فاطر : ۴۱ ] ’’بے شک اللہ ہی آسمانوں کو اور زمین کو تھامے رکھتا ہے، اس سے کہ وہ اپنی جگہ سے ہلیں اور اگر فی الواقع وہ ہٹ جائیں تو اس کے بعد کوئی نہیں جو انھیں تھام لے گا، بے شک وہ ہمیشہ سے نہایت بردبار، بے حد بخشنے والا ہے۔‘‘