تَكَادُ تَمَيَّزُ مِنَ الْغَيْظِ ۖ كُلَّمَا أُلْقِيَ فِيهَا فَوْجٌ سَأَلَهُمْ خَزَنَتُهَا أَلَمْ يَأْتِكُمْ نَذِيرٌ
قریب ہوگی کہ غصے سے پھٹ جائے۔ جب بھی کوئی گروہ اس میں ڈالا جائے گا، اس کے نگران ان سے پوچھیں گے کیا تمھارے پاس کوئی ڈرانے والا نہیں آیا ؟
تَكَادُ تَمَيَّزُ مِنَ الْغَيْظِ....: ’’ تَمَيَّزُ ‘‘ اصل میں ’’تَتَمَيَّزُ‘‘ (تفعّل) ہے، ایک تاء تخفیف کے لیے حذف کر دی گئی۔ ’’قریب ہے کہ غصے سے پھٹ جائے‘‘ اس سے آگ کا صاحب شعور ہونا اور کفار پر سخت غصے ہونا ظاہر ہو رہا ہے۔ جہنم کے اس وقت کے سخت غصے اور جوش و خروش کا نقشہ اس سے بہتر الفاظ میں نہیں کھینچا جا سکتا۔ جہنم میں جب بھی کسی نئے گروہ کے لوگ پھینکے جائیں گے تو جہنم کے نگران فرشتے ان سے پوچھیں گے، کیا تمھارے پاس کوئی ڈرانے والا نہیں آیا تھا؟ یہ سوال ہر گروہ سے ہوگا اور اس لیے نہیں ہوگا کہ فرشتوں کو معلوم نہیں کہ ان کے پاس ڈرانے والے آئے تھے یا نہیں، بلکہ ایک تو تعجب کے اظہار کے لیے ہو گا کہ اللہ کی طرف سے پیغمبروں اور دین کی دعوت دینے والوں کے ڈرانے کے باوجود تم ایمان نہ لائے اور جان بوجھ کر جہنم کا ایندھن بنے، دوسرا ان پر حجت تمام کرنے کے لیے اور خود ان کے منہ سے نکلوانے کے لیے کہ انھیں نہ تو بے خبری میں جہنم میں پھینکا جا رہا ہے اور نہ بلاجرم، بلکہ وہ فی الواقع اس کے حق دار ہیں۔ چنانچہ وہ خود کہیں گے، کیوں نہیں، ہمارے پاس ڈرانے والے آئے اور انھوں نے اللہ کی اتاری ہوئی پوری تعلیم بھی ہم تک پہنچائی، مگر ہم نے انھیں جھٹلا دیا اور اس بات سے سرے سے انکار کر دیا کہ اللہ تعالیٰ نے کوئی چیز نازل کی ہے، بلکہ الٹا انھی کو بڑی گمراہی میں مبتلا قرار دیا۔