سورة الملك - آیت 3

الَّذِي خَلَقَ سَبْعَ سَمَاوَاتٍ طِبَاقًا ۖ مَّا تَرَىٰ فِي خَلْقِ الرَّحْمَٰنِ مِن تَفَاوُتٍ ۖ فَارْجِعِ الْبَصَرَ هَلْ تَرَىٰ مِن فُطُورٍ

ترجمہ عبدالسلام بھٹوی - عبدالسلام بن محمد

وہ جس نے سات آسمان اوپر نیچے پیدا فرمائے۔ رحمان کے پیدا کیے ہوئے میں تو کوئی کمی بیشی نہیں دیکھے گا۔ پس نگاہ کو لوٹا، کیا تجھے کوئی کٹی پھٹی جگہ نظر آتی ہے؟

تفسیر القرآن کریم (تفسیر عبدالسلام بھٹوی) - حافظ عبدالسلام بن محمد

الَّذِيْ خَلَقَ سَبْعَ سَمٰوٰتٍ طِبَاقًا:’’ طِبَاقًا ‘‘ یعنی تہ بہ تہ اوپر نیچے بنایا، یہ باب مفاعلہ کا مصدر ہے۔ حدیث معراج سے معلوم ہوتا ہے کہ ہر آسمان ایک دوسرے سے جدا ہے، چنانچہ ہر آسمان میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ملاقات کسی نہ کسی رسول سے ہوئی۔ [ دیکھیے بخاري، الصلاۃ، باب کیف فرضت الصلاۃ في الإسراء : ۳۴۹ ] مَا تَرٰى فِيْ خَلْقِ الرَّحْمٰنِ مِنْ تَفٰوُتٍ: رحمان کے ( آسمانوں کو) پیدا کرنے میں تم کوئی تفاوت نہیں دیکھو گے۔ جب تم آسمانوں جیسی عظیم الشان مخلوق میں کوئی تفاوت نہیں نکال سکتے تو دوسری مخلوق جو اس سے کہیں چھوٹی ہے، اس میں تم کس طرح تفاوت نکال سکو گے؟ ’’ تَفٰوُتٍ ‘‘ کا معنی ہے کہ تم اتنے بڑے آسمان یا کسی بھی مخلوق کی کوئی چیز دوسری چیز سے بے جوڑ یا بے ترتیب نہیں پاؤ گے، بلکہ سب میں ایک توازن و ترتیب اور یکسانی پاؤ گے، جس سے معلوم ہو گا کہ یہ ایک ہی خالق کی پیدا کی ہوئی ہیں۔ ’’ مِنْ تَفٰوُتٍ ‘‘ کا ایک مطلب یہ ہے کہ تم کسی چیز میں کوئی عیب یا کمی نہیں پاؤ گے کہ کہہ سکو کہ اگر اس طرح ہوتا تو بہتر تھا۔ (قاموس) ’’ خَلْقِ الرَّحْمٰنِ ‘‘ کے لفظ سے توجہ دلائی کہ اتنے عظیم الشان آسمان اور دوسری ساری مخلوق اللہ تعالیٰ کی صفت رحمان کا نتیجہ ہے ۔ فَارْجِعِ الْبَصَرَ هَلْ تَرٰى مِنْ فُطُوْرٍ : ’’ فُطُوْرٍ ‘‘ ’’فَطْرٌ‘‘ کی جمع ہے، جیسے ’’فَلْسٌ‘‘ کی جمع ’’ فُلُوْسٌ‘‘ ہے، پھٹی ہوئی جگہ، دراڑ، شگاف۔ یعنی پہلی دفعہ اگر تمھیں رحمان کے پیدا کیے ہوئے آسمان میں کوئی عیب یا کمی بیشی نظر نہیں آئی تو دوبارہ نظر دوڑا کر دیکھ لو، کیا کوئی دراڑیں یا کٹی پھٹی ہوئی جگہیں نظر آتی ہیں؟ مطلب یہ کہ پوری کائنات میں ذرّوں سے لے کر آسمانوں تک اور ستاروں سے لے کر بڑی بڑی کہکشاؤں تک ہر چیز مستحکم اور مربوط ہے، جتنا چاہو تلاش کر لو تمھیں ایک رخنہ بھی نہیں ملے گا۔