عَسَىٰ رَبُّهُ إِن طَلَّقَكُنَّ أَن يُبْدِلَهُ أَزْوَاجًا خَيْرًا مِّنكُنَّ مُسْلِمَاتٍ مُّؤْمِنَاتٍ قَانِتَاتٍ تَائِبَاتٍ عَابِدَاتٍ سَائِحَاتٍ ثَيِّبَاتٍ وَأَبْكَارًا
اس کا رب قریب ہے، اگر وہ تمھیں طلاق دے دے کہ تمھارے بدلے اسے تم سے بہتر بیویاں دے دے، جو اسلام والیاں، ایمان والیاں، اطاعت کرنے والیاں، توبہ کرنے والیاں، عبادت کرنے والیاں، روزہ رکھنے والیاں ہوں، شوہر دیدہ اور کنواریاں ہوں۔
1۔ عَسٰى رَبُّهٗ اِنْ طَلَّقَكُنَّ اَنْ يُّبْدِلَهٗ اَزْوَاجًا خَيْرًا مِّنْكُنَّ....: اس آیت میں عائشہ اور حفصہ رضی اللہ عنھما کے ساتھ دوسری بیویوں کو بھی خطاب میں شامل فرما لیا ہے، کیونکہ بعض باتوں خصوصاً خرچے میں اضافے کے مطالبے کے ساتھ انھوں نے بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اتنا پریشان کیا کہ آپ نے ایک ماہ کے لیے ان کے پاس نہ جانے کی قسم کھالی، جس کے مکمل ہونے پر اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم دیا کہ اپنی بیویوں کو اختیار دیں۔ تفصیل کے لیے دیکھیے سورۂ احزاب (29،28) کی تفسیر۔ انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا : (( اِجْتَمَعَ نِسَاءَ النَّبِيِّ صَلَّی اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي الْغَيْرَةِ عَلَيْهِ فَقُلْتُ لَهُنَّ عَسٰی رَبُّهُ إِنْ طَلَّقَكُنَّ أَنْ يُبَدِّلَهُ أَزْوَاجًا خَيْرًا مِّنْكُنَّ فَنَزَلَتْ هٰذِهِ الْآيَةُ )) [ بخاري، التفسیر، باب : ﴿عسی ربہ إن طلقکن....﴾ : ۴۹۱۶ ] ’’نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بیویاں غیرت (رشک و رقابت) میں آپ کے خلاف اکٹھی ہوگئیں تو میں نے ان سے کہا کہ اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم تمھیں طلاق دے دیں تو آپ کا رب قریب ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو تم سے بہتر بیویاں دے دے، تو اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔‘‘ عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنھما نے بیان کیا کہ مجھے عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے بیان کیا : ’’جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی بیویوں سے علیحدگی اختیار کی تو میں مسجد میں داخل ہوا، دیکھا کہ لوگ (متفکر بیٹھے ہوئے) کنکریوں کے ساتھ زمین پر نکتے بنا رہے ہیں اور کہہ رہے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی عورتوں کو طلاق دے دی ہے اور یہ حجاب کا حکم نازل ہونے سے پہلے کی بات ہے۔ تو میں نے کہا، میں آج یہ بات ضرور معلوم کر کے رہوں گا۔‘‘ خیر عمر رضی اللہ عنہ نے اپنے عائشہ اور حفصہ رضی اللہ عنھما کے پاس جانے اور انھیں نصیحت کا ذکر فرمایا۔ اس کے بعد فرمایا : ’’میں داخل ہوا تو دیکھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا غلام رباح (رضی اللہ عنہ ) بالاخانے کی دہلیز پر موجود ہے، (جس بالا خانے میں آپ نے ایک ماہ بیویوں سے علیحدہ رہ کر گزارا) میں نے اسے آواز دی اور کہا اے رباح! میرے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے آپ کے پاس جانے کی اجازت مانگو۔‘‘ مختصر یہ کہ عمر رضی اللہ عنہ اجازت ملنے پر اندر گئے اور آپ کو مانوس کرنے کے لیے کچھ باتیں کہیں۔ فرماتے ہیں : ’’میں نے کہا، یا رسول اللہ! آپ پر عورتوں کے معاملے میں کیا مشکل پیش آئے گی؟ سو اگر آپ نے انھیں طلاق دے دی ہے تو اللہ آپ کے ساتھ ہے اور اس کے فرشتے اور جبریل اور میں اور ابو بکر اور تمام مومن آپ کے ساتھ ہیں۔ اور میں نے کم ہی کبھی کوئی بات کی اور میں اللہ کی حمد بیان کرتا ہوں، مگر یہ امید رکھی کہ اللہ تعالیٰ میری بات کو سچا کر دے گا، تو یہ آیت یعنی آیت تخییر اتری : ﴿ عَسٰى رَبُّهٗ اِنْ طَلَّقَكُنَّ اَنْ يُّبْدِلَهٗ اَزْوَاجًا خَيْرًا مِّنْكُنَّ﴾ [التحریم: ۵] ’’اس کا رب قریب ہے، اگر وہ تمھیں طلاق دے دے کہ تمھارے بدلے اسے تم سے بہتر بیویاں دے دے۔‘‘ اور یہ آیت اتری : ﴿وَ اِنْ تَظٰهَرَا عَلَيْهِ فَاِنَّ اللّٰهَ هُوَ مَوْلٰىهُ وَ جِبْرِيْلُ وَ صَالِحُ الْمُؤْمِنِيْنَ وَ الْمَلٰٓىِٕكَةُ بَعْدَ ذٰلِكَ ظَهِيْرٌ﴾ [ التحریم : ۴ ] ’’اور اگر تم اس کے خلاف ایک دوسرے کی مدد کرو تو یقیناً اللہ خود اس کا مدد گار ہے اور جبریل اور صالح مومن اور اس کے بعد تمام فرشتے مددگار ہیں۔‘‘ [ مسلم، الطلاق، باب في الإیلاء و اعتزال النساء وتخییرھن....: ۱۴۷۹ ] اس حدیث سے معلوم ہوا کہ ’’ صَالِحُ الْمُؤْمِنِيْنَ ‘‘ سے مراد سب سے پہلے ابو بکر و عمر رضی اللہ عنھما ہیں، پھر ان کے ساتھ تمام مومن شامل ہیں اور یہ آیت بھی موافقات عمر رضی اللہ عنہ میں سے ہے، یعنی وہ آیات جو ان باتوں کے موافق اتریں جو عمر رضی اللہ عنہ نے کہی تھیں۔ ان میں بدر کے قیدیوں کا معاملہ، حجاب کا معاملہ، مقام ابراہیم کو جائے نماز بنانے کا معاملہ اور دوسری کئی باتیں شامل ہیں۔ 2۔ اس آیت میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بیویوں کو تنبیہ ہے کہ تم اس خیال میں نہ رہنا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو تم سے بہتر بیویاں نہیں مل سکتیں، اس لیے تم جس طرح چاہو نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر دباؤ ڈالتی رہو، بلکہ اگر آپ نے تمھیں طلاق دے دی تو آپ کا رب قریب ہے کہ آپ کو تم سے کہیں بہتر بیویاں عطا فرما دے۔ 3۔ مُسْلِمٰتٍ مُّؤْمِنٰتٍ قٰنِتٰتٍ : ان صفات کی تفسیر پہلے گزر چکی ہے۔ (دیکھیے احزاب : ۳۵) ’’ تٰٓىِٕبٰتٍ عٰبِدٰتٍ سٰٓىِٕحٰتٍ ‘‘ کے لیے دیکھیے سورۂ توبہ (۱۱۲)۔ 4۔ ثَيِّبٰتٍ وَّ اَبْكَارًا : ’’ ثَيِّبٰتٍ‘‘ ’’ ثَيِّبٌ‘‘ کی جمع ہے، طلاق یافتہ یا بیوہ عورت۔ یہ ’’ثَابَ يَثُوْبُ ثَوْبًا‘‘ (ن) سے مشتق ہے، اسے ’’ثيب‘‘ اس لیے کہا جاتا ہے کہ وہ خاوند سے واپس لوٹ آتی ہے اور پھر اسی طرح خاوند کے بغیر رہ جاتی ہے جیسے پہلے تھی۔ ’’اَبْكَارًا ‘‘ ’’بِكْرٌ‘‘ کی جمع ہے، کنواری۔ اسے ’’بکر‘‘ اس لیے کہتے ہیں کہ یہ ابھی اپنی اسی پہلی حالت پر ہوتی ہے جس پر پیدا ہوئی تھی اور ہر جنس میں سب سے پہلی چیز کو بکر کہتے ہیں۔ پہلی صفات کے درمیان واؤ عطف نہیں لائی گئی، کیونکہ وہ سب ایک وقت میں جمع ہو سکتی ہیں، مگر کسی عورت میں ان دونوں میں سے ایک وقت میں ایک ہی صفت ہو سکتی ہے، اس لیے واؤ عطف لائی گئی۔ بے شک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کنواری عورتوں کے ساتھ نکاح کی ترغیب دلائی مگر بعض اوقات ثیبات میں علم و عقل اور تجربے وغیرہ کی ایسی صفات ہوتی ہیں جو انھیں ابکار پر ترجیح دینے کا باعث ہوتی ہیں، اس لیے اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو دونوں طرح کی بیویاں عطا فرمائیں۔ 5۔ اس آیت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو آپ کی ازواج سے بہتر ازواج عطا کرنے کی امید اس شرط پر دلائی تھی کہ آپ موجودہ بیویوں کو طلاق دے دیں، مگر نہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں طلاق دی اور نہ اللہ تعالیٰ نے ان سے بہتر بیویاں آپ کو دیں، بلکہ انھی کو بہتر ہونے کا اور دنیا اور آخرت میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج رہنے کا شرف عطا فرمایا۔ 6۔ اس آیت سے معلوم ہوا کہ آدمی کو بیوی کے انتخاب کے وقت ان صفات کی حامل عورت کو ترجیح دینی چاہیے جو اس آیت میں مذکور ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : (( تُنْكَحُ الْمَرْأَةُ لِأَرْبَعٍ : لِمَالِهَا وَ لِحَسَبِهَا وَجَمَالِهَا وَ لِدِيْنِهَا، فَاظْفَرْ بِذَاتِ الدِّيْنِ تَرِبَتْ يَدَاكَ )) [ بخاري، النکاح، باب الأکفاء في الدین: ۵۰۹۰، عن أبي ہریرۃ رضی اللّٰہ عنہ ] ’’عورت سے چار چیزوں کی وجہ سے نکاح کیا جاتا ہے، اس کے مال کی وجہ سے، اس کے حسب اور اس کے جمال کی وجہ سے اور اس کے دین کی وجہ سے، سو تو دین والی عورت کے ساتھ نکاح میں کامیابی حاصل کر، تیرے ہاتھ خاک آلود ہوں۔‘‘ 7۔ اس مقام پر بعض مفسرین نے لکھا ہے کہ ’’ثیب‘‘ سے مراد آسیہ زوجۂ فرعون ہیں اور ’’بکر‘‘ سے مراد مریم بنت عمران ہیں، ان دونوں کا نکاح جنت میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا جائے گا، مگر ایک تو اس بات کا اس آیت سے کوئی تعلق نہیں، کیونکہ اس میں پہلی بیویوں کو طلاق دینے کی صورت میں ان کے بدلے میں ان سے بہتر ثیبات و ابکار بیویاں عطا کرنے کا ذکر ہے اور جب آپ نے پہلی بیویوں کو طلاق ہی نہیں دی تو ان کے بدلے میں اور بیویوں کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ دوسرے یہ کہ اللہ تعالیٰ جنت میں ان دونوں عظیم خواتین کا نکاح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کر دے تو یہ ناممکن نہیں، مگر یہ ثابت ہونا تو ضروری ہے، جب کہ کسی صحیح دلیل سے یہ بات ثابت نہیں۔