وَأَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ ۚ فَإِن تَوَلَّيْتُمْ فَإِنَّمَا عَلَىٰ رَسُولِنَا الْبَلَاغُ الْمُبِينُ
اور اللہ کا حکم مانو اور رسول کا حکم مانو، پس اگر تم پھر جاؤ تو ہمارے رسول کے ذمے تو صرف کھلم کھلا پہنچا دینا ہے۔
1۔ وَ اَطِيْعُوا اللّٰهَ وَ اَطِيْعُوا الرَّسُوْلَ: سلسلۂ کلام کے مطابق مطلب یہ ہے کہ مصیبت آنے پر اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت سے منہ نہ موڑو، بلکہ تمام حالات میں، اچھے ہوں یا برے ، اللہ کا حکم مانو اور اس کے رسول کا حکم مانو۔ ’’ اَطِيْعُوْا ‘‘ کو ’’ الرَّسُوْلَ ‘‘ کے ساتھ دوبارہ لانے سے ظاہر ہے کہ جس طرح اللہ کا حکم مستقل شریعت ہے اسی طرح رسول کا حکم بھی مستقل شریعت ہے، دونوں میں سے کسی کی مخالفت کی گنجائش نہیں۔ دوسرے لوگ جن کا حکم مانا جاتا ہے وہ یہ مقام نہیں رکھتے، ان کا وہی حکم مانا جائے گا جو کتاب و سنت کے خلاف نہ ہو۔ اس نکتے کی وضاحت سورۂ نساء کی آیت (۵۹) : ﴿ اَطِيْعُوا اللّٰهَ وَ اَطِيْعُوا الرَّسُوْلَ وَ اُولِي الْاَمْرِ مِنْكُمْ ﴾ سے ہوتی ہے کہ’’ اُولِي الْاَمْرِ ‘‘ کے ساتھ ’’ اَطِيْعُوْا ‘‘ کو دوبارہ نہیں لایا گیا۔ تفصیل کے لیے دیکھیے سورہ نساء(۵۹) کی تفسیر۔ 2۔ فَاِنْ تَوَلَّيْتُمْ فَاِنَّمَا عَلٰى رَسُوْلِنَا الْبَلٰغُ الْمُبِيْنُ: پھر اگر مصیبتوں سے گھبرا کر تم نے اطاعت سے منہ موڑ لیا تو اپنا ہی نقصان کروگے، ہمارے رسول کے ذمے صرف یہ ہے کہ وہ اللہ کے احکام صاف صاف تم تک پہنچا دیں، سو وہ اس نے پہنچا دیے۔