مَا أَصَابَ مِن مُّصِيبَةٍ إِلَّا بِإِذْنِ اللَّهِ ۗ وَمَن يُؤْمِن بِاللَّهِ يَهْدِ قَلْبَهُ ۚ وَاللَّهُ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمٌ
کوئی مصیبت نہیں پہنچی مگر اللہ کے اذن سے اور جو اللہ پر ایمان لے آئے وہ اس کے دل کو ہدایت دیتا ہے اور اللہ ہر چیز کو خوب جاننے والا ہے۔
1۔ مَا اَصَابَ مِنْ مُّصِيْبَةٍ....: اس کی تفصیل کے لیے دیکھیے سورۂ حدیدکی آیت (۲۲) کی تفسیر۔ 2۔ اِلَّا بِاِذْنِ اللّٰهِ: اس سے پہلی آیات میں اللہ کی توحید، رسولوں کی رسالت اور قیامت کا بیان تھا، اس آیت میں تقدیر پر ایمان کا بیان ہے جس سے آدمی کے دل میں تکلیفیں برداشت کرنے اور ان پر صبر کرنے کی ہمت پیدا ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ اس آیت میں ایمان والوں کے لیے تسلی اور کفار کے اس اعتراض کا جواب بھی ہے کہ ایمان والوں پرمصیبتیں کیوں آتی ہیں۔ فرمایا جو مصیبت بھی آتی ہے اللہ کے اذن سے آتی ہے جو اللہ تعالیٰ کے ہاں پہلے سے مقدر ہو چکی ہوتی ہے۔ یہ دنیا میں مومن و کافر سب پر آتی ہے، کیونکہ اس کے بغیر امتحان اور آزمائش کا مقصد حاصل نہیں ہوتا۔ البتہ مومن و کافر پر اس کا اثر اور نتیجہ مختلف ہوتا ہے، مومن اپنے رب پر راضی رہتا ہے جس کے نتیجے میں اللہ تعالیٰ اس کے دل کو ہدایت کی روشنی، یقین اور اطمینان کی نعمت اور آخرت میں جنت عطا فرماتا ہے اور کافر اپنے رب پر ناراض ہوجاتا ہے جس کے نتیجے میں وہ دنیا کے اندر ہر وقت پر یشان اور سراپا شکوہ بنا رہتا ہے اور آخرت میں اس کے لیے جہنم ہے۔ 3۔ یعنی جو بھی مصیبت پہنچتی ہے اللہ کے حکم سے اور اس کے طے شدہ فیصلے اور تقدیر کے مطابق پہنچتی ہے۔ 4۔ وَ مَنْ يُّؤْمِنْۢ بِاللّٰهِ يَهْدِ قَلْبَهٗ: یعنی جسے کوئی مصیبت پہنچے اور وہ جان لے کہ یہ اللہ کے فیصلے اور اس کی تقدیر سے ہے، پھر اس پر صبر کرے، ثواب کی نیت رکھے اور اپنے آپ کو پوری طرح اللہ کے فیصلے کے سپرد کر دے تو اللہ تعالیٰ اس کے دل کو ہدایت دیتا ہے اور دنیا میں اس کے ہاتھ سے جو کچھ نکلا یعنی اس سے جو کچھ لیا گیا اس کے بدلے میں اس کے دل میں سیدھی راہ پر چلنے کی توفیق اور سچا یقین عطا فرماتا ہے اور ایسا بھی ہوتا ہے کہ جو کچھ اس سے لیاگیا اس کی جگہ وہی یا اس سے بہتر چیز عطا فرما دیتا ہے۔ اس آیت کی طرح سورۂ بقرہ (۱۵۵ تا ۱۵۷) میں مصیبت پر صبر کرنے والوں کو ’’ الْمُهْتَدُوْنَ ‘‘ (ہدایت والے ) قرار دیا ہے۔ طبری نے علی بن ابی طلحہ کی معتبر سند کے ساتھ ’’ وَ مَنْ يُّؤْمِنْۢ بِاللّٰهِ يَهْدِ قَلْبَهٗ ‘‘ کے متعلق ابن عباس رضی اللہ عنھما کا قول نقل فرمایا ہے : ((يَعْنِيْ يَهْدِ قَلْبَهُ لِلْيَقِيْنِ فَيَعْلَمُ أَنَّ مَا أَصَابَهُ لَمْ يَكُنْ لِيُخْطِه وَمَا أَخْطَأَهُ لَمْ يَكُنْ لِيُصِيْبَهُ )) [ طبري : 12؍23، ح : ۳۴۵۰۹ ] ’’یعنی (آیت کا مطلب یہ ہے کہ جو اللہ پر ایمان رکھے) اللہ تعالیٰ اس کے دل کو یقین کی ہدایت دیتا ہے اور وہ جان لیتا ہے کہ اس پر جو مصیبت آئی وہ کسی صورت اس سے خطا کرنے والی نہیں تھی اور جو خطا کر گئی وہ کسی صورت اس پر آنے والی نہیں تھی۔‘‘ اور اعمش نے ابوظبیان سے بیان کیا کہ ہم علقمہ کے پاس تھے، ان کے پاس یہ آیت پڑھی گئی : ﴿وَ مَنْ يُّؤْمِنْۢ بِاللّٰهِ يَهْدِ قَلْبَهٗ﴾ اور اس کا مطلب پوچھا گیا تو انھوں نے فرمایا : ’’اس سے مراد وہ آدمی ہے جسے کوئی مصیبت آتی ہے تو وہ جان لیتا ہے کہ یہ اللہ کی طرف سے ہے، اس پر راضی ہوجاتا ہے اور اسے تسلیم کرلیتا ہے۔‘‘(ابن جریر و ابن ابی حاتم بسند صحیح) صہیب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((عَجَبًا لِأَمْرِ الْمُؤْمِنِ إِنَّ أَمْرَهُ كُلَّهُ خَيْرٌ وَلَيْسَ ذَاكَ لِأَحَدٍ إِلَّا لِلْمُؤْمِنِ إِنْ أَصَابَتْهُ سَرَّاءُ شَكَرَ، فَكَانَ خَيْرًا لَهُ وَ إِنْ أَصَابَتْهُ ضَرَّاءُ صَبَرَ، فَكَانَ خَيْرًا لَهُ )) [ مسلم، الزہد والر قائق، باب المؤمن أمرہ کلہ خیر : ۲۹۹۹ ] ’’مومن کے معاملے پر تعجب ہے، کیونکہ اس کا سارا معاملہ ہی خیر ہے اور یہ بات مومن کے سواکسی کو حاصل نہیں، اگر اسے کوئی خوشی ملتی ہے تو شکر کرتا ہے اور وہ اس کے لیے خیر ہوتا ہے اور اگر اسے کوئی تکلیف پہنچتی ہے تو صبر کرتاہے اور وہ بھی اس کے لیے خیر ہوتا ہے۔‘‘ 5۔ وَ اللّٰهُ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيْمٌ: یعنی اللہ تعالیٰ کو ہر چیز کا پوری طرح علم ہے، وہ خوب جانتا ہے کہ کون اس کی تقدیر پر ایمان رکھ کر صبر وشکر کرتا ہے اور کون نہیں کرتا، پھر وہ ہر ایک کو اس کے مطابق جزا و سزا دے گا۔