وَأَنفِقُوا مِن مَّا رَزَقْنَاكُم مِّن قَبْلِ أَن يَأْتِيَ أَحَدَكُمُ الْمَوْتُ فَيَقُولَ رَبِّ لَوْلَا أَخَّرْتَنِي إِلَىٰ أَجَلٍ قَرِيبٍ فَأَصَّدَّقَ وَأَكُن مِّنَ الصَّالِحِينَ
اور اس میں سے خرچ کرو جو ہم نے تمھیں دیا ہے، اس سے پہلے کہ تم میں سے کسی کو موت آجائے، پھر وہ کہے اے میرے رب ! تو نے مجھے قریب مدت تک مہلت کیوں نہ دی کہ میں صدقہ کرتا اور نیک لوگوں میں سے ہوجاتا۔
1۔ وَ اَنْفِقُوْا مِنْ مَّا رَزَقْنٰكُمْ....: ’’ مِنْ مَّا رَزَقْنٰكُمْ ‘‘ کی تفسیر کے لیے دیکھیے سورۂ بقرہ کی تیسری آیت کی تفسیر۔ نفاق سے محفوظ رہنے کے لیے اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ نعمتوں میں سے جتنا ہو سکے مرنے سے پہلے خرچ کرنے کا حکم دیا۔ 2۔ مِنْ قَبْلِ اَنْ يَّاْتِيَ اَحَدَكُمُ الْمَوْتُ فَيَقُوْلَ....: یعنی مرتے وقت یہ دعا اور تمنا کرنا بے کار ہے، عقل مند کا کام یہ ہے کہ مہلت سے فائدہ اٹھائے اور مرنے سے پہلے آخرت کا سامان تیار کرے۔ دیکھیے سورۂ ابراہیم (۴۴) اور سورۂ مومنون (۹۹، ۱۰۰)۔ 3۔ فَاَصَّدَّقَ وَ اَكُنْ مِّنَ الصّٰلِحِيْنَ:’’ فَاَصَّدَّقَ ‘‘ اصل میں ’’فَأَتَصَدَّقُ‘‘ ہے، اس پر نصب اس لیے آیا ہے کہ یہ’’ لَوْ لَا ‘‘ کے جواب میں ہے جو تحضیض کے لیے ہے اور اس میں طلب اور شرط کا مفہوم پایا جاتا ہے اور اس پر ’’فاء‘‘ آ رہی ہے جس کے بعد ’’أَنْ‘‘ ناصبہ مقدر ہے اور ’’ اَكُنْ ‘‘ مجزوم اس لیے ہے کہ اس کا عطف جواب شرط کے محل پر ہے اور اس پر ’’فاء‘‘ نہیں آ رہی، گویا اصل کلام اس طرح ہے : ’’رَبِّ أَخِّرْنِيْ إِلٰی أَجَلٍ قَرِيْبٍ فَإِنْ أَخَّرْتَنِيْ أَتَصَدَّقْ وَ أَكُنْ مِّنَ الصَّالِحِيْنَ۔‘‘