سَوَاءٌ عَلَيْهِمْ أَسْتَغْفَرْتَ لَهُمْ أَمْ لَمْ تَسْتَغْفِرْ لَهُمْ لَن يَغْفِرَ اللَّهُ لَهُمْ ۚ إِنَّ اللَّهَ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الْفَاسِقِينَ
ان پر برابر ہے کہ تو ان کے لیے بخشش کی دعا کرے، یا ان کے لیے بخشش کی دعا نہ کرے، اللہ انھیں ہرگز معاف نہیں کرے گا، بے شک اللہ نافرمان لوگوں کو ہدایت نہیں دیتا۔
سَوَآءٌ عَلَيْهِمْ اَسْتَغْفَرْتَ لَهُمْ اَمْ لَمْ تَسْتَغْفِرْ لَهُمْ....: ’’ اَسْتَغْفَرْتَ ‘‘ اصل میں ’’ءَ اِسْتَغْفَرْتَ ‘‘ ہے، ہمزۂ تسویہ آنے کے بعد ہمزۂ وصل کی ضرورت نہ رہی، اس لیے وہ گر گیا۔ اس میں ہمزہ استفہام کا نہیں ہے، بلکہ اسے ہمزۂ تسویہ کہتے ہیں۔ (دیکھیے بقرہ : ۶) آیت کی تفسیر کے لیے دیکھیے سورۂ توبہ (۸۰) کی تفسیر۔ اس سے مقصود آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ان کے لیے معافی کی امید کو ختم کرنا ہے، کیونکہ منافقوں کی تمام شرارتوں اور بے ادبیوں کے باوجود آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی طبعی رحمت و شفقت کی بنا پر چاہتے تھے کہ ان کے لیے معافی کی دعا فرمائیں۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کو ان کے لیے معافی کی دعا سے منع فرما دیا، کیونکہ ان کا فسق حد سے بڑھ چکا تھا۔