إِذَا جَاءَكَ الْمُنَافِقُونَ قَالُوا نَشْهَدُ إِنَّكَ لَرَسُولُ اللَّهِ ۗ وَاللَّهُ يَعْلَمُ إِنَّكَ لَرَسُولُهُ وَاللَّهُ يَشْهَدُ إِنَّ الْمُنَافِقِينَ لَكَاذِبُونَ
جب منافق تیرے پاس آتے ہیں تو کہتے ہیں ہم شہادت دیتے ہیں کہ بلاشبہ تو یقیناً اللہ کا رسول ہے اور اللہ جانتا ہے کہ بلاشبہ تو یقیناً اس کا رسول ہے اور اللہ شہادت دیتا ہے کہ بلاشبہ یہ منافق یقیناً جھوٹے ہیں۔
1۔ اِذَا جَآءَكَ الْمُنٰفِقُوْنَ: ’’ الْمُنٰفِقُوْنَ ‘‘ ’’اَلنَّافِقَاءُ‘‘ سے مشتق ہے جو ’’یربوع‘‘ (چوہے سے ملتے جلتے ایک جنگلی جانور) کے بل کا ایک منہ ہوتا ہے، وہ اسے اس طرح بناتا ہے کہ اس جگہ مٹی کی صرف اتنی تہ رہنے دیتا ہے کہ سر مارے تو کھل جائے، اس منہ کو وہ چھپا کر رکھتا ہے اور دوسرا منہ ظاہر کر دیتا ہے۔ منافق بھی چونکہ اپنا کفر چھپاتا اور ایمان ظاہر کرتا ہے، اس لیے اس کا یہ نام رکھا گیا ہے۔ یہ ایک خالص اسلامی اصطلاح ہے، مراد اس سے عبداللہ بن اُبی اور اس کے ساتھی ہیں۔ 2۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مدینہ تشریف آوری سے کچھ عرصہ پہلے اوس اور خزرج کے درمیان ہونے والی جنگ بعاث میں ان کے بڑے بڑے سردار مارے گئے، ابھی وہ سوچ ہی رہے تھے کہ وہ اپنا ایک متفقہ سردار مقرر کر لیں، بلکہ طے کر چکے تھے کہ عبداللہ بن اُبی کی باقاعدہ تاج پوشی کر کے اسے اپنا سردار بنا لیں۔ اسی اثنا میں چند سعادت مند حج کے لیے مکہ گئے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت پر مسلمان ہوگئے۔ اگلے دو سالوں میں مزید لوگوں نے جا کر بیعت کی اور آخری بار انھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو مدینہ آنے کی دعوت دی۔ ان سالوں میں مدینہ کے ہر گھر میں اسلام پہنچ چکا تھا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی آمد پر اوس و خزرج کے بااثر لوگوں سمیت ان کی اکثریت مسلمان ہوگئی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وجہ سے عبداللہ بن اُبی اور اس کے حامیوں کی سرداری کی امید ناکام ہوئی تو وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے شدید دشمن بن گئے۔ کچھ مدت تک تو وہ کھلم کھلا عداوت کا اظہار کرتے رہے، مگر بدر کی عظیم الشان فتح کے بعد ان کے پاس مدینہ میں رہنے کے لیے مسلمان ہونے کے سوا کوئی چارہ نہ رہا تو وہ مسلمان ہوگئے، حتیٰ کہ عبداللہ بن اُبی بھی مسلمان ہوگیا، مگر ان کا اسلام صرف جان بچانے کے لیے اور وہ فوائد حاصل کرنے کے لیے تھا جو مسلمانوں کو عزت و قوت اور فتح و غنیمت کی صورت میں حاصل تھے۔ یہ لوگ نمازیں پڑھتے، روزے رکھتے، زکوٰۃ دیتے اور جہاں غنیمت کی امید ہوتی جہاد میں بھی جاتے تھے، مگر دل سے اب بھی ایمان نہیں لائے تھے بلکہ ہر موقع پر انھوں نے مسلمانوں کو دھوکا دیا اور نقصان پہنچایا۔ جنگ احد میں یہ لوگ لشکر کا تیسرا حصہ لے کر میدان جنگ سے واپس چلے گئے۔ بنو نضیر، بنو قریظہ اور خیبر والوں کو جنگ پر اور مسلمانوں کے خلاف ڈٹ جانے پر ابھارتے رہے، خندق اور دوسرے مواقع پر انھوں نے کفار کے ساتھ ساز باز رکھی اور جب موقع ملتا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ، مسلمانوں اور اسلام کے متعلق گستاخانہ باتیں کرتے، جیسا کہ اگلی آیات میں آ رہا ہے۔ لیکن جب ایسی باتیں سامنے آنے پر ان سے باز پرس کی جاتی تو وہ قسمیں کھا جاتے کہ ہم مسلمان ہیں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ کا رسول مانتے ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان کی گستاخیوں سے درگزر فرماتے رہے، کیونکہ یہ لوگ کلمہ پڑھ کر مسلمان ہو چکے تھے اور مخلص مسلمانوں کے عزیز اور رشتہ دار بھی تھے۔ اگر آپ انھیں قتل کرتے تو بہت سی بدگمانیاں پیدا ہونے کا اندیشہ تھا، اس لیے آپ سب کچھ برداشت کرتے رہے، حتیٰ کہ آخر کار آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے صبر و ضبط اور عفو و حلم کی وجہ سے ان کی حقیقت کھل کر سب کے سامنے آگئی اور وہ مخلص مسلمانوں کی نگاہ میں بالکل بے قدر و قیمت ہو کر رہ گئے، ان کا کوئی اعتبار باقی نہ رہا۔ ان کا کچھ حال سورۂ بقرہ (۸ تا ۲۰)، آل عمران، نساء، مائدہ، توبہ، احزاب اور دوسرے مقامات پر گزر چکا ہے۔ 3۔ قَالُوْا نَشْهَدُ اِنَّكَ لَرَسُوْلُ اللّٰهِ: ’’إِنَّ‘‘ اور ’’لام تاکید‘‘ عموماً قسم کے جواب میں آتے ہیں اور قسم جیسی تاکید کا فائدہ دیتے ہیں۔ شہادت اس بات کی خبر دینے کو کہتے ہیں جس کا دل سے یقین ہو۔ منافقین کی عادت تھی کہ وہ قسمیں کھا کر اپنی وفاداری کا یقین دلانے کی کوشش کرتے رہتے تھے، جب کہ مخلص مسلمانوں کو اس کی ضرورت ہی نہیں پڑتی تھی۔ مزید دیکھیے سورۂ نساء (۶۲)، توبہ (96،74،62،56) اور سورۂ مجادلہ (۱۸) کی تفسیر۔ 4۔ وَ اللّٰهُ يَعْلَمُ اِنَّكَ لَرَسُوْلُهٗ....: یہ منافقین کا قول نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے، اس لیے اگر وقف کرنا ہو تو ’’ اِنَّكَ لَرَسُوْلُ اللّٰهِ ‘‘ پر کرنا چاہیے، آیت شروع کر کے ’’ اِنَّكَ لَرَسُوْلُهٗ ‘‘ پر وقف سے وہم پڑھتا ہے کہ یہ دونوں جملے منافقین کا قول ہیں۔ یہاں ایک سوال ہے کہ جب اللہ تعالیٰ نے اس بات کی تصدیق فرمائی کہ آپ یقیناً اللہ کے رسول ہیں تو یہ کیوں فرمایا کہ اللہ شہادت دیتا ہے کہ بلاشبہ یہ منافق یقیناً جھوٹے ہیں اور منافق جھوٹے کس طرح ہوئے؟ جواب اس کا یہ ہے کہ ان کا یہ کہنا جھوٹ نہیں کہ آپ اللہ کے رسول ہیں، بلکہ یہ سچ ہے اور اللہ تعالیٰ نے یہ کہہ کر اس کی تصدیق فرمائی کہ ’’ وَ اللّٰهُ يَعْلَمُ اِنَّكَ لَرَسُوْلُهٗ ‘‘ یعنی اللہ جانتا ہے کہ بلاشبہ آپ یقیناً اس کے رسول ہیں، منافقین کو جھوٹا اس لیے فرمایا کہ انھوں نے کہا کہ ہم شہادت دیتے ہیں کہ آپ اللہ کے رسول ہیں، حالانکہ وہ اس بات کی شہادت نہیں دیتے بلکہ یہ بات صرف زبان سے کہہ رہے ہوتے ہیں، دل سے وہ آپ کو اس کا رسول نہیں مانتے۔ شہادت میں سچے وہ تب ہوتے جب وہ دل اور زبان دونوں سے آپ کی رسالت کا اقرار کرتے۔ زمخشری نے فرمایا کہ اگر درمیان میں جملہ ’’ وَ اللّٰهُ يَعْلَمُ اِنَّكَ لَرَسُوْلُهٗ ‘‘ نہ ہوتا تو کلام اس طرح ہونا تھا: ’’إِذَا جَاءَكَ الْمُنَافِقُوْنَ قَالُوْا نَشْهَدُ إِنَّكَ لَرَسُوْلُ اللّٰهِ وَ اللّٰهُ يَشْهَدُ إِنَّ الْمُنَافِقِيْنَ لَكَاذِبُوْنَ‘‘ ’’جب تیرے پاس منافق آتے ہیں تو کہتے ہیں ہم شہادت دیتے ہیں کہ بلاشبہ تو یقیناً اللہ کا رسول ہے اور اللہ شہادت دیتا ہے کہ بلاشبہ یہ منافق یقیناً جھوٹے ہیں‘‘ لیکن اس سے وہم پڑ سکتا تھا کہ اللہ تعالیٰ انھیں اس بات میں جھوٹا کہہ رہے ہیں کہ آپ اللہ کے رسول ہیں، اس لیے درمیان میں یہ فرمایا کہ اللہ تعالیٰ جانتا ہے کہ آپ یقیناً اللہ کے رسول ہیں، پھر فرمایا اور اللہ تعالیٰ شہادت دیتا ہے کہ یہ منافق جھوٹے ہیں، یعنی ان کا یہ کہنا جھوٹ ہے کہ ہم شہادت دیتے ہیں۔