سَبَّحَ لِلَّهِ مَا فِي السَّمَاوَاتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ ۖ وَهُوَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ
اللہ کا پاک ہونا بیان کیا ہر چیز نے، جو آسمانوں میں ہے اور جو زمین میں ہے اور وہی سب پر غالب، کمال حکمت والا ہے۔
سَبَّحَ لِلّٰهِ مَا فِي السَّمٰوٰتِ وَ مَا فِي الْاَرْضِ ....: اس سورت کا مضمون اللہ کے راستے میں جہاد و قتال ہے، ابتدا اس کی اللہ تعالیٰ کی تسبیح کے ذکر سے کی گئی ہے۔ اللہ کی تسبیح سے ابتدا کی سورت کے مضمون سے مناسبت یہ ہے کہ وہ ہستی جس کی تسبیح ہر وہ چیز کرتی ہے جو آسمانوں میں ہے اور ہر وہ چیز بھی جو زمینوں میں ہے، تو تمام مخلوق کی طرح انسان کے لیے بھی اس کی تسبیح کرنا لازم ہے۔ پھر جو لوگ تسبیح کے بجائے اس کے ساتھ کفر و شرک کرتے ہیں تو ایمان والوں پر ان کے ساتھ لڑنا فرض ہے، کیونکہ وہ ساری کائنات کے الٹ چل رہے ہیں اور تسبیح کے بجائے اللہ تعالیٰ کے لیے شریک بنا کر اس کے تمام عیوب و نقائص سے پاک ہونے کی نفی کر رہے ہیں۔ اس سے بڑھ کر توہین کیا ہوگی کہ وہ اللہ تعالیٰ کو وحدہ لاشریک لہ اور تمام صفات کمال کا مالک ماننے کے بجائے اس کے لیے اولاد اور شریک بنا کر اسے عاجز و محتاج ثابت کر رہے ہیں اور اس اکیلے کی عبادت کے بجائے ان چیزوں کو اس کی عبادت میں شریک بنا رہے ہیں جن کا زمین و آسمان کی پیدائش یا بقا میں کوئی حصہ ہی نہیں۔ اسی طرح ان لوگوں پر بھی چوٹ ہے جو ایمان لانے اور اللہ کی راہ میں قتال کے وعدے اور دعوے کے باوجود اس کی راہ میں لڑنے سے گریز کرتے ہیں کہ انھوں نے اللہ کی تسبیح کا حق عملاً ادا نہیں کیا۔ ’’ سَبَّحَ لِلّٰهِ مَا فِي السَّمٰوٰتِ وَ مَا فِي الْاَرْضِ ....‘‘ کی تفسیر سورۂ حدید اور سورۂ حشر کی ابتدا میں گزر چکی ہے، اس مقام پر اللہ تعالیٰ کی صفت ’’ الْعَزِيْزُ ‘‘ لانے میں اشارہ ہے کہ جب وہ ہر ایک پر غالب ہے تو تم اس کے دشمنوں کے ساتھ لڑنے سے کیوں ڈرتے ہو اور صفت ’’ الْحَكِيْمُ ‘‘ لانے میں اشارہ ہے کہ اس نے تمھیں جو حکم دیا ہے کہ کفار سے لڑو اور انھیں اور ان کے کفر و شرک کو کسی صورت غالب نہ آنے دو تو یہ حکم بے مقصد نہیں، بلکہ کمال حکمت پر مبنی ہے اور دنیا و آخرت میں تمھاری عزت اور کامیابی کا ضامن ہے۔ (ابن عاشور)