إِن يَثْقَفُوكُمْ يَكُونُوا لَكُمْ أَعْدَاءً وَيَبْسُطُوا إِلَيْكُمْ أَيْدِيَهُمْ وَأَلْسِنَتَهُم بِالسُّوءِ وَوَدُّوا لَوْ تَكْفُرُونَ
اگر وہ تمھیں پائیں تو تمھارے دشمن ہوں گے اور اپنے ہاتھ اور اپنی زبانیں تمھاری طرف برائی کے ساتھ بڑھائیں گے اور چاہیں گے کاش! تم کفر کرو۔
1۔ اِنْ يَّثْقَفُوْكُمْ يَكُوْنُوْا لَكُمْ اَعْدَآءً ....: اس میں پچھلی آیت کے آخری جملے کی وجہ بیان فرمائی ہے، یعنی تم میں سے جو شخص اس توقع پر کفار و مشرکین سے دوستی رکھے اور ان کی طرف خفیہ پیغام بھیجے کہ وہ مشکل وقت میں اس کے کام آئیں گے یا اس کے اہل و عیال کا خیال رکھیں گے، تو وہ سیدھے راستے سے بھٹک کر غلط راستے پر چل پڑا ہے، کیونکہ ان کافروں کے دلوں میں تمھارے لیے اس قدر بغض و عناد ہے کہ وہ تمھیں زندہ دیکھنا بھی پسند نہیں کرتے، کسر صرف اتنی ہے کہ ان کا بس نہیں چل رہا اور تم ان کے قابو میں نہیں آ رہے۔ اگر کسی وقت ان کا بس چل جائے اور تم ان کے قابو میں آجاؤ تو وہ پہلے کی طرح تمھارے دشمن ہی ہوں گے اور اپنے ہاتھ اور اپنی زبانیں برائی کے ساتھ تمھاری طرف بڑھائیں گے، تم پر دست درازی اور زبان درازی میں کوئی کسر نہیں چھوڑیں گے، جیسا کہ فرمایا : ﴿ كَيْفَ وَ اِنْ يَّظْهَرُوْا عَلَيْكُمْ لَا يَرْقُبُوْا فِيْكُمْ اِلًّا وَّ لَا ذِمَّةً﴾ [ التوبۃ : ۸ ] ’’(مشرکین کے کسی عہد کا اعتبار) کیسے ہو سکتا ہے جبکہ وہ اگر تم پر غالب آ جائیں تو تمھارے بارے میں نہ کسی قرابت کا لحاظ کریں گے اور نہ کسی عہد کا۔‘‘ 2۔ وَدُّوْا لَوْ تَكْفُرُوْنَ: ’’ لَوْ ‘‘ مصدریہ ہے : ’’أَيْ وَدُّوْا كُفْرَكُمْ‘‘ یعنی ان کی خواہش یہی ہوگی کہ تم کافر ہو جاؤ، اس کے بغیر وہ تم سے کسی طرح بھی راضی نہیں ہوں گے۔ مزید دیکھیے سورۂ بقرہ (120،109) اور سورۂ نساء (۸۹)۔