يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَتَّخِذُوا عَدُوِّي وَعَدُوَّكُمْ أَوْلِيَاءَ تُلْقُونَ إِلَيْهِم بِالْمَوَدَّةِ وَقَدْ كَفَرُوا بِمَا جَاءَكُم مِّنَ الْحَقِّ يُخْرِجُونَ الرَّسُولَ وَإِيَّاكُمْ ۙ أَن تُؤْمِنُوا بِاللَّهِ رَبِّكُمْ إِن كُنتُمْ خَرَجْتُمْ جِهَادًا فِي سَبِيلِي وَابْتِغَاءَ مَرْضَاتِي ۚ تُسِرُّونَ إِلَيْهِم بِالْمَوَدَّةِ وَأَنَا أَعْلَمُ بِمَا أَخْفَيْتُمْ وَمَا أَعْلَنتُمْ ۚ وَمَن يَفْعَلْهُ مِنكُمْ فَقَدْ ضَلَّ سَوَاءَ السَّبِيلِ
اے لوگو جو ایمان لائے ہو! میرے دشمنوں اور اپنے دشمنوں کو دوست مت بناؤ، تم ان کی طرف دوستی کا پیغام بھیجتے ہو، حالانکہ یقیناً انھوں نے اس حق سے انکار کیا جو تمھارے پاس آیا ہے، وہ رسول کو اور خود تمھیں اس لیے نکالتے ہیں کہ تم اللہ پر ایمان لائے ہو، جو تمھارا رب ہے، اگر تم میرے راستے میں جہاد کے لیے اور میری رضا تلاش کرنے کے لیے نکلے ہو۔ تم ان کی طرف چھپا کر دوستی کے پیغام بھیجتے ہو، حالانکہ میں زیادہ جاننے والا ہوں جو کچھ تم نے چھپایا اور جو تم نے ظاہر کیا اور تم میں سے جو کوئی ایسا کرے تو یقیناً وہ سیدھے راستے سے بھٹک گیا۔
1۔ يٰاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَا تَتَّخِذُوْا عَدُوِّيْ وَ عَدُوَّكُمْ اَوْلِيَآءَ: ’’ عَدُوٌّ ‘‘ ’’عَدَا يَعْدُوْ عَدْوًا وَعَدَاوَةً‘‘ سے ’’ فَعُوْلٌ ‘‘ بمعنی ’’فَاعِلٌ‘‘ کے وزن پر ہے، دشمن۔ ’’فَعِيْلٌ‘‘ اور ’’ فَعُوْلٌ ‘‘ دونوں صیغے واحد، تثنیہ، جمع اور مذکر و مؤنث کے لیے ایک ہی لفظ کے ساتھ آ جاتے ہیں، اس لیے ترجمہ ’’میرے دشمنوں‘‘ کیا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے یہ کہنے کے بجائے کہ کفار اور مشرکین کو دوست نہ بناؤ، یہ فرمایا کہ میرے دشمنوں اور اپنے دشمنوں کو دوست نہ بناؤ۔ پھر ’’ عَدُوِّيْ ‘‘ (میرے دشمنوں ) کا ذکر پہلے کیا اور ’’ عَدُوَّكُمْ ‘‘ (اپنے دشمنوں) کا ذکر بعد میں کیا۔ اس سے معلوم ہوا کہ کافر و مشرک کبھی مسلمانوں کے دوست نہیں ہو سکتے، کیونکہ ان کی دشمنی کی بنیاد نہ وطن ہے نہ نسب اور نہ مال، بلکہ انھوں نے مسلمانوں کی دشمنی صرف اللہ تعالیٰ کی دشمنی کی وجہ سے اختیار کر رکھی ہے۔ اللہ کی دشمنی کا مطلب یہ ہے کہ وہ اللہ کی توحید، اس کے دین اور اس کے رسول کو نہیں مانتے، اس لیے انھوں نے ان کی شدید مخالفت اور دشمنی اختیار کر رکھی ہے۔ ’’عَدُوِّيْ‘‘ کو ’’عَدُوَّكُمْ‘‘ سے پہلے لانے کی مناسبت یہی معلوم ہوتی ہے کہ وہ اللہ کے دین کے دشمن پہلے ہیں، پھر اس کی وجہ سے وہ مسلمانوں کے دشمن ہیں۔ آیت میں کفار و مشرکین کی عداوت کا حوالہ دے کر مسلمانوں کو ان کی دوستی سے منع فرمایا گیا ہے۔ قرآن مجید میں کئی مقامات پر کفار کی دوستی سے منع کیا گیا ہے اور ساتھ ہی دوستی سے ممانعت کی کوئی نہ کوئی وجہ بیان کی گئی ہے۔ دیکھیے سورۂ آل عمران (۲۸)، نساء (۱۴۴)، مائدہ (57،51) اور سورۂ توبہ (24،23) ان تمام وجوہات میں بنیادی بات یہی ہے کہ وہ تمھارے اور تمھارے دین کے دشمن ہیں، جب تک تم کافر نہ ہو جاؤ وہ کبھی تمھارے دوست نہیں ہو سکتے۔ دیکھیے سورۂ بقرہ (۱۲۰) اور سورۂ نساء (۸۹)۔ 2۔ تُلْقُوْنَ اِلَيْهِمْ بِالْمَوَدَّةِ: اس کے دو معنی ہو سکتے ہیں، ایک یہ کہ ’’اَلْمَوَدَّةُ ‘‘ ’’ تُلْقُوْنَ ‘‘ کا مفعول بہ ہے اور اس پر ’’باء‘‘ تاکید کے لیے آئی ہے، اس صورت میں معنی یہ ہے کہ تم ان کی طرف دوستی کا پیغام بھیجتے ہو۔ دوسرا معنی یہ کہ ’’ تُلْقُوْنَ ‘‘ کا مفعول بہ محذوف ہے : ’’أَيْ تُلْقُوْنَ إِلَيْهِمُ الْأَخْبَارَ بِالْمَوَدَّةِ‘‘ ’’یعنی تم دوستی کی وجہ سے ان کی طرف خبریں پہنچاتے ہو (جن کا اللہ کے دشمنوں اور تمھارے دشمنوں کو کسی صورت علم نہیں ہونا چاہیے)۔‘‘ 3۔ وَ قَدْ كَفَرُوْا بِمَا جَآءَكُمْ مِّنَ الْحَقِّ: یعنی انھوں نے تو وہ حق ماننے ہی سے انکار کر دیا ہے جو تمھارے پاس آیا ہے اور تم ہو کہ ان کی طرف دوستی کے پیغام بھیجتے ہو۔ 4۔ يُخْرِجُوْنَ الرَّسُوْلَ وَ اِيَّاكُمْ اَنْ تُؤْمِنُوْا بِاللّٰهِ رَبِّكُمْ: ’’ اَنْ تُؤْمِنُوْا بِاللّٰهِ رَبِّكُمْ ‘‘ سے پہلے لام محذوف ہے، یعنی انھوں نے صرف کفر اور معمولی دشمنی ہی پر اکتفا نہیں کیا بلکہ رشتہ داری اور محبت کے تمام سلسلے قطع کر کے رسول کو اور تمھیں اتنی ایذا دی کہ تم سب کو مکہ سے نکلنے پر مجبور کر دیا، صرف اس وجہ سے کہ تم اپنے رب پر ایمان رکھتے ہو۔ اس جملے کی ہم معنی آیات کے لیے دیکھیے سورۂ بروج (۸) اور سورۂ حج (۴۰) ’’ يُخْرِجُوْنَ ‘‘ مضارع کا صیغہ لانے کا مطلب یہ ہے کہ نہ صرف یہ کہ انھوں نے تمھیں نکالا ہے بلکہ وہ تمھیں نکالنے پر ابھی تک قائم ہیں اور اب بھی تمھیں تمھارے گھروں میں واپس نہیں آنے دے رہے۔ اس میں مسلمانوں کو کفار کی دشمنی کے لیے ابھارا گیا ہے کہ کس قدر تعجب کی بات ہے کہ وہ تمھارے رسول کو اور تمھیں نکال رہے ہیں اور تم ان کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھا رہے ہو۔ 5۔ اِنْ كُنْتُمْ خَرَجْتُمْ جِهَادًا فِيْ سَبِيْلِيْ ....: ’’جِهَادًا‘‘ اور ’’ابْتِغَآءَ مَرْضَاتِيْ‘‘ دونوں ’’ خَرَجْتُمْ ‘‘ کے مفعول لہ ہیں اور ’’ اِنْ كُنْتُمْ ‘‘ شرط کی جزا محذوف ہے جو آیت کے پہلے جملے ’’ لَا تَتَّخِذُوْا عَدُوِّيْ وَ عَدُوَّكُمْ اَوْلِيَآءَ ‘‘ سے معلوم ہو رہی ہے، یعنی اگر تم میرے راستے میں جہاد کے لیے اور میری رضا تلاش کرنے کے لیے نکلے ہو تو میرے دشمنوں اور اپنے دشمنوں کو دوست مت بناؤ۔ 6۔ تُسِرُّوْنَ اِلَيْهِمْ بِالْمَوَدَّةِ ....: یعنی تم پر تعجب ہے کہ تم چھپ کر ان کی طرف دوستی کے پیغام بھیجتے ہو، حالانکہ میں ان باتوں کو جو تم نے چھپائیں اور جو ظاہر کیں تم سے اور ہر ایک سے بڑھ کر جاننے والا ہوں۔ سو تمھیں یہ سوچ کر بھی ایسی حرکت سے اجتناب کرنا چاہیے کہ تمھارا مالک تمھارے ہر کام سے پوری طرح آگاہ ہے اور تم اپنی کوئی حرکت اس سے کسی طرح بھی نہیں چھپا سکتے۔ 7۔ وَ مَنْ يَّفْعَلْهُ مِنْكُمْ فَقَدْ ضَلَّ سَوَآءَ السَّبِيْلِ: یعنی یہ صرف حاطب رضی اللہ عنہ یا کسی مہاجر کی مشرکینِ مکہ کے ساتھ دوستی کا معاملہ نہیں، بلکہ قیامت تک آنے والے مسلمانوں میں سے جو بھی یہ کام کرے گا وہ یقیناً سیدھے راستے سے بھٹک گیا۔ 8۔ اس آیت سے مخلصین پر اللہ تعالیٰ کی بے پایاں رحمت کا اظہار بھی ہو رہا ہے کہ اتنی بڑی غلطی کرنے والوں کو ’’ يٰاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا ‘‘ کے ساتھ خطاب ہو رہا ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ کسی معصیت اور گناہ کی وجہ سے آدمی کافر نہیں ہوتا، اس لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حاطب رضی اللہ عنہ کی غلطی سے درگزر فرمایا۔ یہ بھی معلوم ہوا کہ کسی آدمی کے معاملات میں اس کی سابقہ زندگی کو بھی مدِ نظر رکھا جائے گا۔