سورة الحشر - آیت 14

لَا يُقَاتِلُونَكُمْ جَمِيعًا إِلَّا فِي قُرًى مُّحَصَّنَةٍ أَوْ مِن وَرَاءِ جُدُرٍ ۚ بَأْسُهُم بَيْنَهُمْ شَدِيدٌ ۚ تَحْسَبُهُمْ جَمِيعًا وَقُلُوبُهُمْ شَتَّىٰ ۚ ذَٰلِكَ بِأَنَّهُمْ قَوْمٌ لَّا يَعْقِلُونَ

ترجمہ عبدالسلام بھٹوی - عبدالسلام بن محمد

وہ اکٹھے ہو کر تم سے نہیں لڑیں گے مگر قلعہ بند بستیوں میں، یا دیواروں کے پیچھے سے، ان کی لڑائی آپس میں بہت سخت ہے۔ تو خیال کرے گا کہ وہ اکٹھے ہیں، حالانکہ ان کے دل الگ الگ ہیں، یہ اس لیے کہ بے شک وہ ایسے لوگ ہیں جو عقل نہیں رکھتے۔

تفسیر القرآن کریم (تفسیر عبدالسلام بھٹوی) - حافظ عبدالسلام بن محمد

لَا يُقَاتِلُوْنَكُمْ جَمِيْعًا اِلَّا فِيْ قُرًى مُّحَصَّنَةٍ ....: ’’حِصْنٌ‘‘ کا معنی قلعہ ہے۔ ’’ مُحَصَّنَةٍ ‘‘ قلعہ بنائی ہوئی محفوظ بستیاں۔ ’’ جُدُرٍ‘‘ ’’جِدَارٌ‘‘ کی جمع ہے، دیواریں۔ یعنی یہ یہودی ایسے نامرد اور بزدل ہیں کہ کبھی اکٹھے ہو کر میدان میں تمھارا سامنا نہیں کریں گے، بلکہ قلعہ بند بستیوں میں یا دیواروں کے پیچھے رہ کر ہی لڑیں گے۔ اس طرح لڑنے والے ہمیشہ ذلیل ہی ہوتے ہیں، کیونکہ جو میدان میں نکلنے کی جرأت نہیں رکھتا اسے قلعے اور دیواریں بھی نہیں بچا سکتیں۔ تاریخ شاہد ہے کہ اصحاب رسول صلی اللہ علیہ وسلم کھلے میدان میں لڑنا پسند کرتے تھے اور چونکہ وہ شہادت کی تلاش میں لڑتے تھے، اس لیے دشمن پہلی چوٹ ہی میں پیٹھ پھیر کر بھاگ اٹھتا تھا۔ یہودی چونکہ موت سے بچتے تھے اس لیے وہ میدان میں آنے کے بجائے قلعوں اور دیواروں کی پناہ کے ذریعے سے زندگی بچانے کی کوشش میں رہتے تھے۔ یہ الگ بات ہے کہ ان کی قلعہ بند بستیاں بھی انھیں ذلت اور موت سے نہ بچا سکیں۔ بَاْسُهُمْ بَيْنَهُمْ شَدِيْدٌ : یعنی یہ یہودی اور منافقین تمھارے مقابلے میں تبھی آ سکتے تھے جب وہ آپس میں ایک ہوتے، جبکہ ان کا حال یہ ہے کہ وہ صرف اسلام دشمنی میں اکٹھے ہیں، ورنہ ان کی آپس کی لڑائی بہت سخت ہے۔ منافقین و یہود اور مشرکین کا ایک دوسرے سے یہی معاملہ ہے۔ پھر ان میں سے ہر ایک گروہ کے افراد آپس میں بھی ایک نہیں بلکہ ایک دوسرے سے شدید دشمنی رکھتے ہیں، ایسے لوگوں میں یہ حوصلہ کہاں کہ وہ تمھارے مقابلے میں اکٹھے ہو کر میدان میں نکلیں۔ تَحْسَبُهُمْ جَمِيْعًا وَّ قُلُوْبُهُمْ شَتّٰى:’’ شَتّٰى ‘‘ ’’شَتِيْتٌ‘‘ کی جمع ہے، جیسے’’ قَتِيْلٌ‘‘ کی جمع ’’ قَتْلٰي‘‘ ہے، یعنی تم انھیں گمان کرو گے کہ وہ اکٹھے ہیں، حالانکہ ان کے دل الگ الگ ہیں۔ ذٰلِكَ بِاَنَّهُمْ قَوْمٌ لَّا يَعْقِلُوْنَ : اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ ایسے لوگ ہیں جو کام کے انجام کو نہیں سوچتے اور عقل سے کام نہیں لیتے، بلکہ اپنی خواہشوں کے پیچھے چلتے ہیں، جس کا نتیجہ باہمی اختلاف اور عداوت ہی ہے۔ ’’ قَوْمٌ ‘‘ کے لفظ سے ظاہر ہے کہ یہ ان کے ایک آدھ آدمی کا معاملہ نہیں بلکہ پوری قوم کا مزاج ہی یہ ہے۔ 5۔ ان آیات میں مسلمانوں کی تربیت ہے کہ وہ ایک دوسرے کی مخالفت، عناد اور دشمنی سے بہت زیادہ اجتناب کریں اور اچھی طرح سمجھ لیں کہ کوئی بھی قوم دشمن پر اسی وقت غالب ہو سکتی ہے جب ان کے دل ایک دوسرے کے کینے اور عداوت سے پاک اور ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہوں اور وہ قومی و اجتماعی مفاد کو اپنے ذاتی مفادات پر ترجیح دیتے ہوئے یک زبان و یک جان ہوں۔ 6۔ مفسر ثناء اللہ امرتسری لکھتے ہیں : ’’اس آیت کے حکیمانہ مضمون کو اور مسلمانوں کی اندرونی حالت نوعی و صنفی، پھر صنفی در صنفی کو دیکھیں تو بے ساختہ منہ سے نکلتا ہے کہ یہ آیت ہمارے ہی حق میں اتری ہے۔ خواجہ حالی نے اس حالت کا نقشہ یوں کھینچا ہے: نہ سنی میں اور جعفری میں ہو ملت نہ نعمانی و شافعی میں ہو الفت وہابی سے صوفی کی کم نہ ہو نفرت مقلد کرے نامقلد پہ لعنت رہے اہل قبلہ میں جنگ ایسی باہم کہ دین خدا پر ہنسے سارا عالم کسی ایک غرضِ عام کے لیے ایک جگہ جمع نہیں ہو سکتے، ابتدا میں اگر ہوتے ہیں تو انتہا میں بگڑ جاتے ہیں۔ کچھ شک نہیں کہ یہ اطوار انھی لوگوں میں ہوتے ہیں جو قومی اغراض عامہ سے ناواقف ہوتے ہیں، اس لیے ان کے حق میں یہ الٰہی فیصلہ بالکل حق اور بجا ہے : ﴿ذٰلِكَ بِاَنَّهُمْ قَوْمٌ لَّا يَعْقِلُوْنَ ﴾ ’’یہ اس لیے کہ وہ ایسے لوگ ہیں جو عقل نہیں رکھتے۔ (ثنائی)