سورة الحشر - آیت 11

أَلَمْ تَرَ إِلَى الَّذِينَ نَافَقُوا يَقُولُونَ لِإِخْوَانِهِمُ الَّذِينَ كَفَرُوا مِنْ أَهْلِ الْكِتَابِ لَئِنْ أُخْرِجْتُمْ لَنَخْرُجَنَّ مَعَكُمْ وَلَا نُطِيعُ فِيكُمْ أَحَدًا أَبَدًا وَإِن قُوتِلْتُمْ لَنَنصُرَنَّكُمْ وَاللَّهُ يَشْهَدُ إِنَّهُمْ لَكَاذِبُونَ

ترجمہ عبدالسلام بھٹوی - عبدالسلام بن محمد

کیا تو نے ان لوگوں کو نہیں دیکھا جنھوں نے منافقت کی، وہ اپنے ان بھائیوں سے کہتے ہیں جنھوں نے اہل کتاب میں سے کفر کیا، یقیناً اگر تمھیں نکالا گیا تو ضرور بالضرور ہم بھی تمھارے ساتھ نکلیں گے اور تمھارے بارے میں کبھی کسی کی بات نہیں مانیں گے اور اگر تم سے جنگ کی گئی تو ضرور بالضرور ہم تمھاری مدد کریں گے اور اللہ شہادت دیتا ہے کہ بلاشبہ وہ یقیناً جھوٹے ہیں۔

تفسیر القرآن کریم (تفسیر عبدالسلام بھٹوی) - حافظ عبدالسلام بن محمد

اَلَمْ تَرَ اِلَى الَّذِيْنَ نَافَقُوْا ....: اکثر مفسرین نے لکھا ہے کہ یہ آیات عبداللہ بن اُبی اور اس کے دوسرے منافق ساتھیوں کے بارے میں اتریں کہ انھوں نے بنو نضیر کے یہود کی طرف پیغام بھیجا کہ اپنے قلعوں میں ڈٹ جاؤ، اگر تمھیں نکالا گیا تو ہم تمھارے ساتھ نکلیں گے۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ یقیناً یہ لوگ جھوٹے ہیں، اگر انھیں نکالا گیا تو یہ ان کے ساتھ نہیں نکلیں گے۔ مفسر آلوسی نے لکھا ہے کہ اس کا مطلب تو یہ ہوا کہ یہ سورت بنو نضیر کے واقعہ سے پہلے اتری ہے، جب کہ محدثین اور سیرت نگاروں کے مطابق یہ سورت بنو نضیر کے واقعہ کے بعد اتری ہے، جب وہ جلا وطن کیے جا چکے تھے۔ آلوسی نے اشارے ہی پر اکتفا کیا ہے کہ ان آیات کو بنو نضیر کے متعلق سمجھنا درست نہیں۔ ابن عاشور نے اپنی تفسیر ’’التحریر والتنویر‘‘ میں لکھا ہے کہ منافقین نے جن کفار اہل کتاب کو یہ بات کہی تھی وہ بنو نضیر نہیں بلکہ بنو قریظہ اور خیبر کے یہودی تھے، کیونکہ بنو نضیر کا قصہ تو اس سے پہلے تمام ہو چکا تھا۔ اب وہ منافقین باقی ماندہ یہودیوں کو مسلمانوں کے مقابلے میں ڈٹ جانے کی تلقین کر رہے تھے اور انھیں یقین دلا رہے تھے کہ ہم ہر حال میں تمھارا ساتھ دیں گے۔ اللہ تعالیٰ نے ان آیات میں مسلمانوں کو حوصلہ دلایا کہ فکر مت کرو، یہ کسی صورت میں بھی ان کا ساتھ نہیں دیں گے۔ ابنِ عاشور کی بات ہی درست ہے۔ ان آیات کو طبری میں مذکور ابن عباس رضی اللہ عنھما کے جس قول کے مطابق بنو نضیر کے متعلق قرار دیا گیا ہے اس کی سند ثابت نہیں، اس میں طبری کے شیخ محمد بن حمید رازی ضعیف ہیں۔ 2۔ ’’ اَلَمْ تَرَ ‘‘ ’’أَلَمْ تَعْلَمْ‘‘ کے معنی میں ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کے بہت سے دلائل میں سے یہ بھی ایک دلیل ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو منافقین کی اس بات سے آگاہ کر دیا جو ان کے درمیان انتہائی راز کی بات تھی۔ يَقُوْلُوْنَ لِاِخْوَانِهِمُ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا مِنْ اَهْلِ الْكِتٰبِ : جیسا کہ اوپر گزرا کہ ان کفار اہل کتاب سے مراد بنو قریظہ اور خیبر کے یہودی ہیں، انھیں منافقین کے بھائی قرار دینے سے ظاہر ہے کہ جس طرح ایمان والے آپس میں دوست اور بھائی ہیں (دیکھیے حجرات : ۱۰۔ انفال : ۷۲) اسی طرح کفار بھی کفر میں ایک دوسرے کے دوست اور بھائی ہیں،جیسا کہ فرمایا : ﴿وَ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا بَعْضُهُمْ اَوْلِيَآءُ بَعْضٍ﴾ [الأنفال:۷۳] ’’اور جن لوگوں نے کفر کیا ان کے بعض بعض کے دوست ہیں۔‘‘ بھائی ہونے سے مراد نسبی اخوت نہیں ہے، کیونکہ عبداللہ بن ابی اور دوسرے اکثر منافقین اوس و خزرج کے مشرکین میں سے تھے، اہلِ کتاب سے ان کی اخوت کفر ہی میں تھی۔ لَىِٕنْ اُخْرِجْتُمْ لَنَخْرُجَنَّ مَعَكُمْ وَ لَا نُطِيْعُ فِيْكُمْ اَحَدًا اَبَدًا : اس میں منافقین یہود کے دل میں آنے والے اس خطرے کا تدارک کر رہے ہیں کہ یہ لوگ اپنے قبیلوں اوس و خزرج میں سے مسلمان ہونے والوں کے رشتہ دار ہیں، ان مسلمانوں نے انھیں ہماری مدد سے منع کیا تو یہ مدد سے ہاتھ کھینچ لیں گے، اس لیے منافقین کہہ رہے ہیں کہ فکر مت کرو، ہم تمھارے بارے میں کسی کی بات نہیں مانیں گے۔ وَ اللّٰهُ يَشْهَدُ اِنَّهُمْ لَكٰذِبُوْنَ : اللہ تعالیٰ کی طرف سے اتنی ہی بات کافی تھی کہ قسم کھا کر فرما دیا کہ بلاشبہ وہ یقیناً جھوٹے ہیں، مگر اللہ تعالیٰ نے اگلی آیت میں ان کی ایک ایک بات ذکر کر کے فرمایا کہ وہ ان میں سے کوئی وعدہ پورا نہیں کریں گے۔ علم بلاغت میں اسے اطناب کہتے ہیں، یعنی کسی جگہ مختصر بات کا موقع ہوتا ہے، کسی جگہ توسط کا اور کہیں ضرورت ہوتی ہے کہ بات کو خوب لمبا کر کے بیان کیا جائے۔ یہاں منافقین کے جھوٹ کو واضح کرنے اور انھیں ذلیل کرنے کے لیے اللہ تعالیٰ نے بات کو لمبا کیا ہے۔ (ابن عاشور)