لِلْفُقَرَاءِ الْمُهَاجِرِينَ الَّذِينَ أُخْرِجُوا مِن دِيَارِهِمْ وَأَمْوَالِهِمْ يَبْتَغُونَ فَضْلًا مِّنَ اللَّهِ وَرِضْوَانًا وَيَنصُرُونَ اللَّهَ وَرَسُولَهُ ۚ أُولَٰئِكَ هُمُ الصَّادِقُونَ
(یہ مال) ان محتاج گھر بار چھوڑنے والوں کے لیے ہے جو اپنے گھروں اور اپنے مالوں سے نکال باہر کیے گئے۔ وہ اللہ کی طرف سے کچھ فضل اور رضا تلاش کرتے ہیں اور اللہ اور اس کے رسول کی مدد کرتے ہیں، یہی لوگ ہیں جو سچے ہیں۔
1۔ لِلْفُقَرَآءِ : یہ پچھلی آیت میں مذکور ’’ وَ لِذِي الْقُرْبٰى وَ الْيَتٰمٰى وَ الْمَسٰكِيْنِ وَ ابْنِ السَّبِيْلِ ‘‘ سے بدل ہے۔ گویا یہ کہا جا رہا ہے کہ ان چاروں سے مراد فقراء مہاجرین ہیں اور انصار اور ان کے بعد آنے والے جو ان کے نقشِ قدم پر چلنے والے، ان سے محبت کرنے والے اور ان کے لیے دعا کرنے والے ہیں۔ 2۔ الْمُهٰجِرِيْنَ الَّذِيْنَ اُخْرِجُوْا مِنْ دِيَارِهِمْ وَ اَمْوَالِهِمْ : یعنی ایک تو وہ فقراء ہیں پھر مہاجر ہیں۔ مراد ان سے وہ لوگ ہیں جو اس وقت مکہ معظمہ اور عرب کے دوسرے علاقوں سے صرف اس جرم میں نکال دیے گئے تھے کہ انھوں نے اسلام قبول کر لیا تھا۔ یہ لوگ اپنے وطن میں گھر بار اور جائداد وغیرہ سب کچھ رکھتے تھے مگر اب خالی ہاتھ تھے، نہ ان کے پاس رہنے کے لیے گھر تھے نہ ضرورت کے لیے مال۔ بنو نضیر کا علاقہ فتح ہونے سے پہلے ان کی رہائش اور معاش کا کوئی مستقل بندوبست نہ تھا۔ انصار نے انھیں اپنے ساتھ اپنے گھروں میں رکھا ہوا تھا اور انھیں اپنے باغات اور زمینوں کی آمدنی میں بھی شریک کر رکھا تھا۔ اس آیت میں فرمایا کہ یہ لوگ مالِ فے کے حق دار ہیں، تاکہ اپنے پاؤں پر کھڑے ہو سکیں۔ چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انصار کے مشورے سے بنو نضیر کے باغات اور زمینیں فقراء مہاجرین میں تقسیم کر دیں اور ان کے پاس انصار کی جو زمینیں اور باغات تھے وہ انصار کو واپس کر دیے گئے۔ صرف دو انصاریوں کو ان اموال میں سے کچھ نہ کچھ دیا گیا۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ مال فے میں صرف اس زمانے کے مہاجرین کا حصہ تھا، بلکہ قیامت تک جو لوگ مسلمان ہونے کی وجہ سے اپنے ملک سے نکال دیے جائیں انھیں جگہ دینا اور اپنے پاؤں پر کھڑا ہونے کے قابل بنانا مسلمان ملکوں کا فرض ہے۔ اس کے لیے زکوٰۃ کے علاوہ اموال فے بھی خرچ کیے جائیں گے۔ 3۔ يَبْتَغُوْنَ فَضْلًا مِّنَ اللّٰهِ وَ رِضْوَانًا : یعنی ہجرت سے ان کا مقصد دنیا کی کوئی چیز نہیں، بلکہ انھوں نے محض اللہ کا فضل یعنی جنت اور اس کی رضا کی تلاش کے لیے ہجرت کی ہے جس کا اللہ تعالیٰ نے ایمان والوں سے وعدہ فرمایا ہے۔ مزید دیکھیے سورۂ توبہ کی آیت (۷۲) کی تفسیر۔ 4۔ وَ يَنْصُرُوْنَ اللّٰهَ وَ رَسُوْلَهٗ : اور وہ اپنی جانوں اور مالوں کے ساتھ اللہ اور اس کے رسول کی یعنی ان کے دین کی مدد کرتے ہیں۔ 5۔ اُولٰٓىِٕكَ هُمُ الصّٰدِقُوْنَ : یعنی یہی وہ لوگ ہیں جنھوں نے اپنے عمل کے ساتھ اپنے قول میں سچے ہونے کو ثابت کر دیا۔ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے مہاجرین کے صادق ہونے کی شہادت دی ہے، اگلی آیت میں انصار کے بھی ’’ الْمُفْلِحُوْنَ ‘‘ ہونے کی شہادت دی ہے۔ سورۂ انفال میں دونوں کے متعلق فرمایا : ﴿ اُولٰٓىِٕكَ هُمُ الْمُؤْمِنُوْنَ حَقًّا﴾ [الأنفال:۷۳ ] ’’وہی سچے مومن ہیں۔‘‘ اب اس سے بڑا ظالم کون ہوگا جو ان کے صدق یا ایمان میں شک کرے یا ان کے متعلق زبان درازی کرے!؟