مَّا أَفَاءَ اللَّهُ عَلَىٰ رَسُولِهِ مِنْ أَهْلِ الْقُرَىٰ فَلِلَّهِ وَلِلرَّسُولِ وَلِذِي الْقُرْبَىٰ وَالْيَتَامَىٰ وَالْمَسَاكِينِ وَابْنِ السَّبِيلِ كَيْ لَا يَكُونَ دُولَةً بَيْنَ الْأَغْنِيَاءِ مِنكُمْ ۚ وَمَا آتَاكُمُ الرَّسُولُ فَخُذُوهُ وَمَا نَهَاكُمْ عَنْهُ فَانتَهُوا ۚ وَاتَّقُوا اللَّهَ ۖ إِنَّ اللَّهَ شَدِيدُ الْعِقَابِ
جو کچھ بھی اللہ نے ان بستیوں والوں سے اپنے رسول پر لوٹایا تو وہ اللہ کے لیے اور رسول کے لیے اور قرابت دار اور یتیموں اور مسکینوں اور مسافر کے لیے ہے، تاکہ وہ تم میں سے مال داروں کے درمیان ہی گردش کرنے والا نہ ہو اور رسول تمھیں جو کچھ دے تو وہ لے لو اور جس سے تمھیں روک دے تو رک جاؤ اور اللہ سے ڈرو، یقیناً اللہ بہت سخت سزا دینے والا ہے۔
1۔ مَا اَفَآءَ اللّٰهُ عَلٰى رَسُوْلِهٖ مِنْ اَهْلِ الْقُرٰى : ’’ الْقُرٰى ‘‘ میں الف لام عہد کا ہے، اس لیے ترجمہ ’’ان بستیوں‘‘ کیا گیا ہے۔ 2۔ فَلِلّٰهِ وَ لِلرَّسُوْلِ وَ لِذِي الْقُرْبٰى....: اس آیت میں ایک عام اصول بیان کیا گیا ہے کہ جو اموال بھی جنگی کار روائیوں کے بغیر مسلمانوں کے ہاتھ لگ جائیں وہ بیت المال کی ملکیت تصور ہوں گے، ان میں سے مجاہدین کو کچھ نہیں ملے گا، کیونکہ یہ ان کی محنت کا نتیجہ نہیں بلکہ یہ اس اجتماعی قوت کا نتیجہ ہے جو اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ، اس کی امت اور اس کے قائم کردہ نظام کو عطا فرمائی ہے۔ لہٰذا یہ اموال اموالِ غنیمت سے بالکل جداگانہ حیثیت رکھتے ہیں، انھیں اموال فے کہا جاتا ہے اور ان کا اطلاق منقولہ اور غیر منقولہ دونوں قسم کے اموال پر ہوگا۔ اموال فے میں جزیہ و خراج کی آمدنی بھی شامل ہے جو ایک اسلامی ریاست کو غیر مسلموں سے حاصل ہوتی ہے۔ ان کی تقسیم کا مکمل اختیار رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو عطا کیا گیا اور آپ کے بعد یہ اختیار مسلمانوں کے امیر کو حاصل ہوتا ہے، جسے وہ اللہ تعالیٰ کی مقرر کردہ مدّات میں خرچ کرنے کے لیے استعمال کرتا ہے۔ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے اموال فے کی وہ مدّات بھی بیان فرما دیں جہاں انھیں خرچ کیا جائے گا۔ یہ وہی مدّات ہیں جن میں اموالِ غنیمت کا خمس خرچ کیا جاتا ہے، اموالِ فے کا خمس نہیں بلکہ وہ پورے کے پورے انھی میں خرچ کیے جائیں گے۔ تفصیل کے لیے دیکھیے سورۂ انفال ( ۴۱ )کی تفسیر۔ 3۔ كَيْ لَا يَكُوْنَ دُوْلَةًۢ بَيْنَ الْاَغْنِيَآءِ مِنْكُمْ : ’’ دُوْلَةً ‘‘ ’’دَالَ يَدُوْلُ دَوْلَةً ‘‘(ن)’’اَلزَّمَانُ‘‘ زمانے کا ایک حالت سے دوسری حالت میں بدلنا، جیسا کہ فرمایا : ﴿وَ تِلْكَ الْاَيَّامُ نُدَاوِلُهَا بَيْنَ النَّاسِ﴾ [ آل عمران : ۱۴۰] ’’اور یہ تو دن ہیں، ہم انھیں لوگوں کے درمیان باری باری بدلتے رہتے ہیں۔‘‘ ’’ دُوْلَةً ‘‘ وہ چیز جو ایک دوسرے سے لی جائے، کبھی اس کے پاس ہو کبھی اس کے پاس۔ ’’تاکہ مال فے تم میں سے مال داروں کے درمیان ہی گردش کرنے والا نہ ہو‘‘ ربطِ مضمون کے لحاظ سے تو اس کا مطلب اتنا ہی ہے کہ اموال فے کو مجاہدین پر تقسیم نہ کیا جائے، جن کے اکثر پہلے ہی غنی ہو چکے ہیں، محتاج اور مسکین نہیں رہے، بلکہ انھیں نادار لوگوں تک پہنچایا جائے، تاہم اس میں اسلام کے معاشی نظام کی بنیاد بھی بیان کر دی گئی ہے کہ مسلمانوں میں دولت کا بہاؤ فقراء سے اغنیاء کی طرف نہیں ہوتا کہ دولت مند زیادہ سے زیادہ دولت مند اور غریب زیادہ سے زیادہ غریب ہوتے چلے جائیں، بلکہ دولت کا بہاؤ اغنیاء سے فقراء کی طرف ہوتا ہے اور اس سے پورے معاشرے کو فائدہ اٹھانے کا موقع ملتا ہے۔ دولت کے چند ہاتھوں میں جمع ہونے کا سب سے بڑا ذریعہ سود ہے، اللہ تعالیٰ نے اسے حرام قرار دے دیا۔ دولت کی تقسیم کے لیے زکوٰۃ فرض کی گئی، اموال غنیمت میں سے خمس نکالنے کا حکم دیا گیا، مال فے سارا ہی پانچ مدّات میں تقسیم کرنے کا حکم دیا گیا،نفلی صدقات کی بار بار تلقین کی گئی ،بہت سی فروگزاشتوں پر کفارے رکھے گئے اور میراث کا ایسا قانون بنا دیا کہ ہر مرنے والے کی دولت یکجا رہنے کے بجائے پھیل جائے۔ بخل کی شدید مذمت کی گئی اور اللہ کی راہ میں خرچ کرنے کی بار بار تاکید کی گئی اور اس کی فضیلت بیان کی گئی۔ ان احکام پر عمل کیا جائے تو دولت چند ہاتھوں میں جمع ہو ہی نہیں سکتی۔ 4۔ وَ مَا اٰتٰىكُمُ الرَّسُوْلُ فَخُذُوْهُ وَ مَا نَهٰىكُمْ عَنْهُ فَانْتَهُوْا : سلسلۂ کلام کے لحاظ سے اس کا مطلب یہ ہے کہ اموالِ فے میں سے رسول تمھیں جو کچھ دے وہ لے لو اور جس سے روک دے اس سے رک جاؤ۔ آپ کے فیصلے کو کسی چون و چرا اور ملال کے بغیر تسلیم کر لو۔ چونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارادہ یہ تھا کہ بنو نضیر کے اموال مہاجرین ہی میں تقسیم کر دیے جائیں، تاکہ وہ اپنے پاؤں پر کھڑے ہو جائیں، تو گویا انصار سے کہا جا رہا ہے کہ اگر رسول کسی موقع پر تمھیں نہ دے تو مطالبہ نہ کرو، یہ رسول کی صواب دید پر ہے کہ وہ تمام مستحقین کو دے یا بعض کو زیادہ مستحق سمجھ کر دے اور دوسروں کو نہ دے۔ سیاق کے مطابق آیت کا مطلب یہ ہے، مگر آیت کے الفاظ عام ہیں، اس لیے یہ صرف اموال کی تقسیم تک محدود نہیں بلکہ اس میں حکم دیا گیا ہے کہ ہر معاملے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کرو۔ اس کی وضاحت اس بات سے بھی ہوتی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے یہ نہیں فرمایا : ’’ مَا أَتَاكُمُ الرَّسُوْلُ فَخُذُوْهُ وَمَا مَنَعَكُمْ فَلَا تَأْخُذُوْهُ‘‘ کہ رسول تمھیں جو دے وہ لے لو اور جو نہ دے وہ نہ لو، بلکہ فرمایا جس سے روک دے اس سے رک جاؤ، جس سے منع کر دے اس سے باز آ جاؤ۔ اس سے معلوم ہوا کہ آیت کا مقصد آپ کے حکم کی اطاعت ہے۔ چنانچہ اس آیت نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کو مستقل قانون کی حیثیت دے دی ہے اور یہ شرط نہیں رکھی کہ وہی حکم مانو جو قرآن مجید میں ہو، اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا جو حکم بھی صحیح حدیث سے ثابت ہو واجب العمل ہے۔ اس کی تائید اس حدیث سے ہوتی ہے جو ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : (( دَعُوْنِيْ مَا تَرَكْتُكُمْ ، إِنَّمَا هَلَكَ مَنْ كَانَ قَبْلَكُمْ بِسُؤَالِهِمْ وَاخْتِلاَفِهِمْ عَلٰی أَنْبِيَاهمْ ، فَإِذَا نَهَيْتُكُمْ عَنْ شَيْءٍ فَاجْتَنِبُوْهُ ، وَ إِذَا أَمَرْتُكُمْ بِأَمْرٍ فَأْتُوْا مِنْهُ مَا اسْتَطَعْتُمْ )) [بخاري، الاعتصام بالکتاب والسنۃ، باب الاقتداء بسنن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم : ۷۲۸۸ ] ’’مجھے اس وقت تک رہنے دو جب تک میں تمھیں چھوڑے رکھوں، کیونکہ تم سے پہلے لوگ اپنے انبیاء سے سوال اور ان سے اختلاف کی وجہ سے ہلاک ہوگئے۔ تو جب میں تمھیں کسی چیز سے منع کر دوں تو اس سے دور رہو اور جب میں تمھیں کسی کام کا حکم دوں تو اس میں سے جتنا کر سکتے ہو کرو۔‘‘ اور جلیل القدر صحابی عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے بھی اس آیت سے یہی بات سمجھی ہے۔ چنانچہ ان کے شاگرد علقمہ بیان کرتے ہیں کہ ایک دفعہ انھوں نے فرمایا : (( لَعَنَ اللّٰهُ الْوَاشِمَاتِ وَالْمُوْتَشِمَاتِ وَالْمُتَنَمِّصَاتِ وَالْمُتَفَلِّجَاتِ لِلْحُسْنِ، الْمُغَيِّرَاتِ خَلْقَ اللّٰهِ )) ’’اللہ تعالیٰ نے ان عورتوں پر لعنت کی ہے جو جلد میں سوئی کے ساتھ نیل بھر کر نقش و نگار بنانے والی ہیں اور جو بنوانے والی ہیں اور جو چہرے کے بال اکھاڑنے والی ہیں اور جو خوب صورتی کے لیے سامنے کے دانتوں میں فاصلہ بنانے والی ہیں، اللہ کی پیدا کردہ شکل کو بدلنے والی ہیں۔‘‘ بنو اسد کی ایک عورت ام یعقوب کو یہ بات پہنچی تو وہ آئی اور کہنے لگی : ’’مجھے پتا چلا ہے کہ آپ نے فلاں فلاں کام کرنے والی عورتوں پر لعنت کی ہے؟‘‘ تو انھوں نے فرمایا : ’’میں اس پر لعنت کیوں نہ کروں جس پر اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے لعنت کی ہے اور جو اللہ کی کتاب میں موجود ہے؟‘‘ اس عورت نے کہا : ’’میں نے دو تختیوں کے درمیان جتنا قرآن ہے سارا پڑھا ہے، مگر مجھے اس میں یہ بات نہیں ملی جو آپ کہہ رہے ہیں۔‘‘ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا : ’’اگر تم اسے پڑھتی تو تمھیں ضرور مل جاتی، کیا تم نے یہ نہیں پڑھا : ﴿وَ مَا اٰتٰىكُمُ الرَّسُوْلُ فَخُذُوْهُ وَ مَا نَهٰىكُمْ عَنْهُ فَانْتَهُوْا﴾ [ الحشر : ۷ ] ’’ اور رسول تمھیں جو کچھ دے تو وہ لے لو اور جس سے تمھیں روک دے تو رک جاؤ ۔‘‘ اس نے کہا : ’’کیوں نہیں؟‘‘ فرمایا : ’’تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے منع فرمایا ہے۔‘‘ اس نے کہا : ’’میرا خیال تو یہ ہے کہ آپ کے گھر والے یہ کام کرتے ہیں۔‘‘ فرمایا : ’’جاؤ اور دیکھو۔‘‘ وہ گئی، دیکھا مگر اسے اپنے مطلب کی کوئی چیز دکھائی نہ دی، تو (ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے) فرمایا : ’’اگر وہ (میری بیوی) ایسی ہوتی تو ہمارے ساتھ نہ رہتی۔‘‘ [ بخاري، التفسیر، باب : ﴿وما آتاکم الرسول فخذوہ﴾ : ۴۸۸۶ ] 5۔ وَ اتَّقُوا اللّٰهَ اِنَّ اللّٰهَ شَدِيْدُ الْعِقَابِ : یعنی اللہ سے ڈرتے رہو اور یاد رکھو! اگر تم نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کی تعمیل نہ کی یا آپ کے منع کردہ سے باز نہ آئے تو اللہ کی سزا بہت سخت ہے۔