سورة المجادلة - آیت 13

أَأَشْفَقْتُمْ أَن تُقَدِّمُوا بَيْنَ يَدَيْ نَجْوَاكُمْ صَدَقَاتٍ ۚ فَإِذْ لَمْ تَفْعَلُوا وَتَابَ اللَّهُ عَلَيْكُمْ فَأَقِيمُوا الصَّلَاةَ وَآتُوا الزَّكَاةَ وَأَطِيعُوا اللَّهَ وَرَسُولَهُ ۚ وَاللَّهُ خَبِيرٌ بِمَا تَعْمَلُونَ

ترجمہ عبدالسلام بھٹوی - عبدالسلام بن محمد

کیا تم اس سے ڈر گئے کہ اپنی سرگوشی سے پہلے کچھ صدقے پیش کرو، سو جب تم نے ایسا نہیں کیا اور اللہ نے تم پر مہربانی فرمائی تو نماز قائم کرو اور زکوٰۃ دو اور اللہ اور اس کے رسول کا حکم مانو اور اللہ اس سے پوری طرح باخبر ہے جو تم کرتے ہو۔

تفسیر القرآن کریم (تفسیر عبدالسلام بھٹوی) - حافظ عبدالسلام بن محمد

ءَاَشْفَقْتُمْ اَنْ تُقَدِّمُوْا بَيْنَ يَدَيْ نَجْوٰىكُمْ صَدَقٰتٍ: اس سے ظاہر ہے کہ اس حکم کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ علیحدگی میں گفتگو کا رجحان، جو بہت بڑھ گیا تھا، رک گیا۔ منافقین اپنے بخل کی وجہ سے رک گئے اور مخلص مسلمان، جو نادار تھے، غربت کی وجہ سے محتاط ہو گئے۔ فَاِذْ لَمْ تَفْعَلُوْا وَ تَابَ اللّٰهُ عَلَيْكُمْ: اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس حکم کے نزول کے بعد کسی نے نہ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کوئی رازدارانہ بات کرنے کی جرأت کی اور نہ اس مقصد کے لیے صدقہ دینے کی نوبت آئی، بلکہ انھیں احساس ہوگیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے رازدارانہ گفتگو کے بارے میں ان کی روش اللہ تعالیٰ کو پسند نہیں آئی، اس لیے وہ اس پر نادم ہوئے اور اپنے رویے سے باز آگئے۔ ’’ وَ تَابَ اللّٰهُ عَلَيْكُمْ ‘‘ یعنی اللہ تعالیٰ نے بھی ان پر مہربانی فرمائی اور آپ سے مناجات سے پہلے صدقے کا حکم منسوخ کر دیا۔ فَاَقِيْمُوا الصَّلٰوةَ وَ اٰتُوا الزَّكٰوةَ ....: یعنی جب یہ وقتی حکم تم سے اٹھا لیا گیا تو ان احکام کی پابندی کرتے رہو جن پر عمل تمھارے لیے ہمیشہ لازم ہے۔ ان میں سب سے اہم نماز اور زکوٰۃ ہے، اس کے ساتھ اللہ اور اس کے رسول کے ہر حکم کی اطاعت پر کار بند رہو اور یہ بات ہمیشہ پیشِ نظر رکھو کہ اللہ تعالیٰ تمھارے ہر عمل سے پوری طرح باخبر ہے۔ 4۔ یہ حکم اگرچہ منسوخ ہو گیا مگر اس سے جو مقصود تھا وہ حاصل ہوگیا، مسلمان تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت اور آپ کے ادب کی وجہ سے علیحدگی میں لمبی گفتگو سے اجتناب کرنے لگے اور منافقین اس خوف سے کہ ہم نے ایسا کیا تو ہمارا نفاق کھل جائے گا اور ہم پہچان لیے جائیں گے۔