لِّكَيْلَا تَأْسَوْا عَلَىٰ مَا فَاتَكُمْ وَلَا تَفْرَحُوا بِمَا آتَاكُمْ ۗ وَاللَّهُ لَا يُحِبُّ كُلَّ مُخْتَالٍ فَخُورٍ
تاکہ تم نہ اس پر غم کرو جو تمھارے ہاتھ سے نکل جائے اور نہ اس پر پھول جاؤ جو وہ تمھیں عطا فرمائے اور اللہ کسی تکبر کرنے والے، بہت فخر کرنے والے سے محبت نہیں رکھتا۔
1۔ لِكَيْلَا تَاْسَوْا عَلٰى مَا فَاتَكُمْ ....: ’’لَا تَأْسَوْا‘‘ ’’أَسِيَ يَأْسٰي أَسًي‘‘ (خَشِيَ يَخْشٰي) (غمگین ہونا) سے نفی مضارع معلوم ہے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے موسیٰ علیہ السلام سے فرمایا : ﴿فَلَا تَاْسَ عَلَى الْقَوْمِ الْفٰسِقِيْنَ﴾ [ المائدۃ : ۲۶ ] ’’پس تو ان نافرمان لوگوں پر غم نہ کر۔‘‘ اور شعیب علیہ السلام نے اپنی قوم کے ہلاک ہونے پر فرمایا : ﴿ فَكَيْفَ اٰسٰى عَلٰى قَوْمٍ كٰفِرِيْنَ﴾ [ الأعراف : ۹۳ ] ’’تو میں نہ ماننے والے لوگوں پر کیسے غم کروں۔‘‘ ’’ اٰتٰىكُمْ ‘‘ ’’أَتٰي يَأْتِيْ إِتْيَانًا‘‘ (ض) آنا اور ’’آتٰي يُؤْتِيْ إِيْتَاءً‘‘ (افعال) دینا۔ یعنی ہم نے تمھیں یہ بات بتا دی ہے، تاکہ جو چیز تمھارے ہاتھ سے نکل جائے، خواہ ملنے کے بعد چلی جائے یا مل ہی نہ سکے، اس پر تم غم نہ کرو اور اللہ تعالیٰ تمھیں جو کچھ دے اس پر پھول نہ جاؤ، کیونکہ جب تم جان لو گے کہ ہر چیز اللہ کی تقدیر میں لکھی ہوئی ہے تو ہاتھ سے نکلنے والی چیز پر تم زیادہ غمگین نہیں ہوگے اور ملنے والی چیز پر اتراؤ گے نہیں، کیونکہ جسے معلوم ہو کہ جانے والی چیز نے جانا ہی تھا تو وہ اس کے جانے پر زیادہ جزع فزع نہیں کرتا، اس لیے کہ وہ ہر وقت اپنے آپ کو اس کے لیے تیار رکھتا ہے۔ اسی طرح جب اسے معلوم ہو کہ جو فائدہ اسے حاصل ہونا ہے وہ ہونا ہی ہونا ہے، ممکن ہی نہیں کہ حاصل نہ ہو تو وہ اس کے حاصل ہونے پر اترائے گا نہیں، کیونکہ وہ جانتا ہے کہ یہ میری بہادری سے حاصل نہیں ہوا۔ نتیجہ یہ ہوگا کہ آدمی اللہ کی تقدیر سمجھ کر نقصان پر صبر کرے گا اور فائدے پر اپنی خوبی سمجھنے کے بجائے اللہ کا شکر کرے گا۔ 2۔ اس آیت کا مطلب یہ نہیں کہ کسی چیز کے حاصل کرنے کے لیے آدمی کو کوشش بھی نہیں کرنی چاہیے، بلکہ مطلب یہ ہے کہ کوشش کے بعد اگر ناکامی ہو تو غم نہیں بلکہ صبر کرنا چاہیے اور کامیابی کی صورت میں فخر و غرور نہیں بلکہ شکر بجا لانا چاہیے۔ اللہ تعالیٰ نے اسی کو تقدیر پر ایمان کا فائدہ قرار دیا ہے اور اسی عقیدہ پر کاربند رہ کر زندگی میں اعتدال رہتا ہے اور آدمی افراط و تفریط سے محفوظ رہتا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : (( اََلْمُؤْمِنُ الْقَوِيُّ خَيْرٌ وَ أَحَبُّ إِلَی اللّٰهِ مِنَ الْمُؤْمِنِ الضَّعِيْفِ وَ فِيْ كُلٍّ خَيْرٌ، احْرِصْ عَلٰی مَا يَنْفَعُكَ وَاسْتَعِنْ بِاللّٰهِ وَلَا تَعْجَزْ وَ إِنْ أَصَابَكَ شَيْءٌ فَلاَ تَقُلْ لَوْ أَنِّيْ فَعَلْتُ كَانَ كَذَا وَكَذَا وَلٰكِنْ قُلْ قَدَرُ اللّٰهِ وَمَا شَاءَ فَعَلَ فَإِنَّ لَوْ تَفْتَحُ عَمَلَ الشَّيْطَانِ )) [مسلم، القدر، باب في الأمر بالقوۃ وترک العجز ....: ۲۶۶۴، عن أبي ھریرۃ رضی اللّٰہ عنہ ] ’’طاقتور مومن کمزور مومن سے بہتر اور اللہ تعالیٰ کو زیادہ محبوب ہے اور ہر ایک میں بھلائی موجود ہے۔ جو چیز تجھے نفع دے اس کی حرص کر اور اللہ سے مدد مانگ اور عاجز نہ ہو اور اگر تجھے کوئی (نقصان دہ) چیز پہنچے تو یہ مت کہہ کہ اگر میں اس طرح کرتا تو اس طرح اور اس طرح ہو جاتا، بلکہ یوں کہہ کہ اللہ نے قسمت میں (اسی طرح) لکھا تھا اور جو اس نے چاہا کر دیا، کیونکہ ’’لَوْ‘‘ (اگر) کا لفظ شیطان کا کام کھول دیتا ہے۔‘‘ 3۔ یہاں ایک سوال ہے کہ مصیبت پر غم اور راحت پر خوشی انسانی فطرت ہے، پھر ہاتھ سے نکلنے والی چیز پر غم سے اور عطا ہونے والی چیز پر خوش ہونے سے کیوں منع فرمایا، جب کہ ان پر ہمارا اختیار ہی نہیں؟ جواب اس کا یہ ہے کہ منع اس غم سے کیا گیا ہے جو اس حد تک پہنچ جائے کہ آدمی جزع فزع اور اللہ تعالیٰ کا شکوہ کرنے لگے۔ اگر اللہ کی رضا پر راضی رہے تو غم پر کوئی مؤاخذہ نہیں، بلکہ اس پر صبر کا اجر بھی ملتا ہے۔ اگر غم ہی نہ ہو تو صبر کس بات پر ہوگا؟ جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا : (( إِنَّ الْعَيْنَ تَدْمَعُ وَالْقَلْبَ يَحْزَنُ، وَلاَ نَقُوْلُ إِلاَّ مَا يَرْضٰی رَبُّنَا وَ إِنَّا بِفِرَاقِكَ يَا إِبْرَاهِيْمُ! لَمَحْزُوْنُوْنَ )) [بخاري، الجنائز، باب قول النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم : ’’ إنا بک لمحزونون ‘‘ : ۱۳۰۳ ] ’’آنکھ آنسو بہاتی ہے اور دل غمگین ہوتا ہے اور ہم اس کے سوا جو ہمارا رب پسند فرمائے کچھ نہیں کہتے اور یقیناً تیری جدائی سے اے ابراہیم! ہم غمزدہ ہیں۔‘‘ اسی طرح منع اس خوش ہونے سے کیا گیا ہے جو آدمی کو شکر کے بجائے فخر و غرور تک پہنچا دے۔ دلیل اس کی آیت کے آخری الفاظ ’’ وَ اللّٰهُ لَا يُحِبُّ كُلَّ مُخْتَالٍ فَخُوْرٍ ‘‘ ہیں۔ ہر خوشی سے منع نہیں کیا گیا، کیونکہ اگر خوشی ہی نہ ہو تو شکر کس بات پر کرے گا؟ 4۔ وَ اللّٰهُ لَا يُحِبُّ كُلَّ مُخْتَالٍ فَخُوْرٍ: ’’مُخْتَالٍ‘‘ ’’خ ی ل‘‘ سے باب افتعال کا اسم فاعل ہے، جو اپنے خیال میں بڑا بننے والا ہو، متکبر۔ ’’ فَخُوْرٍ‘‘ ’’ فَخْرٌ‘‘ میں سے مبالغے کا صیغہ ہے، جو دوسروں کے سامنے بہت فخر کرنے والا ہو۔ تقدیر کو مد نظر نہ رکھنے کا نتیجہ ہر کامیابی کو اپنی بہادری اور کارکردگی سمجھنا ہے، جس سے آدمی میں تکبر اور فخر پیدا ہوتا ہے، حالانکہ اگر آدمی کی اپنی کارکردگی بھی ہو تو وہ، بلکہ اس کا اپنا وجود سب اللہ تعالیٰ کی عطا ہے اور اس نے یہ سب کچھ پہلے لکھ دیا ہے، پھر جو شخص اس پر شکر کے بجائے تکبر و فخر کرتا ہے اس سے اللہ تعالیٰ محبت کیسے کر سکتا ہے ؟ 5۔ بعض اہلِ علم نے فرمایا کہ اس سے پہلے اللہ تعالیٰ نے دو چیزیں بیان فرمائی ہیں، ایک ’’ اِعْلَمُوْا اَنَّمَا الْحَيٰوةُ الدُّنْيَا لَعِبٌ وَّ لَهْوٌ .... ‘‘ اور دوسری ’’ مَا اَصَابَ مِنْ مُّصِيْبَةٍ فِي الْاَرْضِ وَ لَا فِيْ اَنْفُسِكُمْ .... ‘‘ پھر فرمایا : ﴿ لِكَيْلَا تَاْسَوْا عَلٰى مَا فَاتَكُمْ وَ لَا تَفْرَحُوْا بِمَا اٰتٰىكُمْ ﴾ مطلب یہ ہے کہ ہم نے تمھیں دنیا کی زندگی اور اس کی زیب و زینت کا فانی ہونا مثال دے کر اس لیے سمجھایا ہے کہ اللہ تعالیٰ تمھیں جو کچھ دے اس پر پھول نہ جاؤ، بلکہ یاد رکھو کہ یہ عارضی اور فانی ہے اور ہم نے یہ بات کہ ہر مصیبت پہلے سے لکھی ہوئی ہے، اس لیے بتائی ہے کہ تم اس کے آنے پر زیادہ غم نہ کرو۔ گویا یہ لف نشر غیر مرتب ہے۔ یہ تفسیر بھی پر لطف ہے۔