أَلَمْ يَأْنِ لِلَّذِينَ آمَنُوا أَن تَخْشَعَ قُلُوبُهُمْ لِذِكْرِ اللَّهِ وَمَا نَزَلَ مِنَ الْحَقِّ وَلَا يَكُونُوا كَالَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَابَ مِن قَبْلُ فَطَالَ عَلَيْهِمُ الْأَمَدُ فَقَسَتْ قُلُوبُهُمْ ۖ وَكَثِيرٌ مِّنْهُمْ فَاسِقُونَ
کیا ان لوگوں کے لیے جو ایمان لائے، وقت نہیں آیا کہ ان کے دل اللہ کی یاد کے لیے اور اس حق کے لیے جھک جائیں جو نازل ہوا ہے اور وہ ان لوگوں کی طرح نہ ہوجائیں جنھیں ان سے پہلے کتاب دی گئی، پھر ان پر لمبی مدت گزر گئی تو ان کے دل سخت ہوگئے اور ان میں سے بہت سے نافرمان ہیں۔
1۔ اَلَمْ يَاْنِ لِلَّذِيْنَ اٰمَنُوْا ....:’’ اَلَمْ يَاْنِ ‘‘ ’’أَنٰي يَأْنِيْ أَنْيًا وَ إِنًي‘‘ (ض) ناقص یائی سے جحد معلوم ہے، کسی چیز کے وقت کا آ جانا، جیسا کہ فرمایا : ﴿ غَيْرَ نٰظِرِيْنَ اِنٰىهُ﴾ [الأحزاب:۵۳ ] ’’اس (کھانے) کے (پکنے کے) وقت کا انتظار نہ کرنے والے۔‘‘ پچھلی آیت میں قیامت کے دن مومن مردوں اور عورتوں اور منافق مردوں اور عورتوں کا حال ذکر فرمایا، جسے سن کر دل لرز اٹھتے ہیں اور خوف زدہ ہو کر عاجزی سے اپنے رب کے سامنے جھک جاتے ہیں۔ اس کے باوجود ان سے کماحقہ اثر قبول نہ کرنے پر ایمان والوں کو متنبہ فرمایا کہ کیا ابھی وہ وقت نہیں آیا کہ ان کے دل اللہ تعالیٰ کی یاد اور اس کی نصیحت کی وجہ سے اور اس کی طرف سے نازل ہونے والے حق کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کے سامنے عاجز ہو کر جھک جائیں؟ ایمان والوں سے مراد وہ تمام ایمان والے ہیں جنھیں اس سے پہلے ایمان لانے، اللہ کی راہ میں خرچ کرنے اور لڑنے کا حکم دیا گیا ہے اور اس میں سستی اور کوتاہی پر عتاب کیا گیا ہے۔ مقصد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی آیات میں اتنا عتاب سن کر اور قیامت کے دن منافقین کا انجامِ بد سن کر بھی کیا ایمان والوں کے لیے اللہ کے سامنے جھکنے اور اس کے احکام پر تن دَہی سے عمل کرنے کا وقت نہیں آیا؟ جب کہ ایمان کا تقاضا تو یہ ہے کہ اللہ کی آیات سن کر دل نرم ہو جائے اور اللہ کو یاد کرتے ہوئے فوراً نصیحت کا اثر قبول کرے، کیونکہ ایمان والوں کی یہی شان ہوتی ہے، جیسا کہ فرمایا : ﴿ اِنَّمَا الْمُؤْمِنُوْنَ الَّذِيْنَ اِذَا ذُكِرَ اللّٰهُ وَ جِلَتْ قُلُوْبُهُمْ وَ اِذَا تُلِيَتْ عَلَيْهِمْ اٰيٰتُهٗ زَادَتْهُمْ اِيْمَانًا وَّ عَلٰى رَبِّهِمْ يَتَوَكَّلُوْنَ﴾ [ الأنفال : ۲ ] ’’(اصل) مومن تو وہی ہیں کہ جب اللہ کا ذکر کیا جائے تو ان کے دل ڈر جاتے ہیں اور جب ان پر اس کی آیات پڑھی جائیں تو انھیں ایمان میں بڑھا دیتی ہیں اور وہ اپنے رب ہی پر بھروسا رکھتے ہیں۔‘‘ اور فرمایا : ﴿اَللّٰهُ نَزَّلَ اَحْسَنَ الْحَدِيْثِ كِتٰبًا مُّتَشَابِهًا مَّثَانِيَ تَقْشَعِرُّ مِنْهُ جُلُوْدُ الَّذِيْنَ يَخْشَوْنَ رَبَّهُمْ ثُمَّ تَلِيْنُ جُلُوْدُهُمْ وَ قُلُوْبُهُمْ اِلٰى ذِكْرِ اللّٰهِ﴾ [ الزمر : ۲۳ ] ’’اللہ نے سب سے اچھی بات نازل فرمائی، ایسی کتاب جو آپس میں ملتی جلتی ہے، (ایسی آیات )جو باربار دہرائی جانے والی ہیں، اس سے ان لوگوں کی کھالوں کے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں جو اپنے رب سے ڈرتے ہیں، پھر ان کی کھالیں اور ان کے دل اللہ کے ذکر کی طرف نرم ہو جاتے ہیں۔‘‘ 2۔ وَ لَا يَكُوْنُوْا كَالَّذِيْنَ اُوْتُوا الْكِتٰبَ ....: ’’قَسَتْ‘‘ اصل میں ’’قَسَوَتْ‘‘ ہے، باب اس کا ’’ قَسَا يَقْسُوْ قَسْوَةً وَقَسَاوَةً ‘‘ آتا ہے، سخت ہو جانا۔ یعنی کیا ایمان والوں کے لیے وقت نہیں آیا کہ…اور وہ ان لوگوں کی طرح نہ ہو جائیں جنھیں اس سے پہلے کتاب یعنی تورات اور اس کے بعد انجیل دی گئی کہ شروع میں ان کا یہ حال تھا کہ اللہ کی آیات سن کر ان کے دل نرم ہو جاتے اور وہ ڈر جاتے تھے اور اپنی خواہشات کے پیچھے چلنے کے بجائے اللہ تعالیٰ کے احکام پر عمل کرتے تھے، پھر جیسے جیسے انبیاء کے زمانے سے دوری ہوتی گئی وہ خواہشات اور دنیا کی لذتوں کے پیچھے پڑتے گئے اور اللہ کے احکام جاننے کے باوجود ان پر عمل چھوڑ بیٹھے، جس سے ان کے دل سخت ہو گئے اور انھوں نے دانستہ اللہ کی حرام کردہ چیزوں کو حلال کر لیا۔ شرک، زنا، قتلِ ناحق، چوری، سود خوری اور دوسرے گناہ عام ہوگئے۔ اللہ کی آیات سن کر دل نرم ہونے اور ان کے سامنے جھک جانے کے بجائے انھوں نے ان میں تحریف شروع کر دی، جس کے نتیجے میں وہ راہِ راست سے بہت دور چلے گئے اور باہمی ضد اور عناد میں بہت سے فرقوں میں بٹ گئے۔ 3۔ وَ كَثِيْرٌ مِّنْهُمْ فٰسِقُوْنَ: یعنی اب بھی ان کا یہی حال ہے کہ ان میں سے بہت زیادہ لوگ فاسق ہیں۔ ’’ فَقَسَتْ قُلُوْبُهُمْ ‘‘ میں ان کی قلبی حالت کا بیان ہے اور ’’ فٰسِقُوْنَ ‘‘ میں ان کی عملی حالت کا بیان ہے۔ دوسری جگہ اس قسوتِ قلب کا سبب اور اس کا نتیجہ کچھ تفصیل سے بیان فرمایا ہے، وہاں ان کے دوسرے عہد توڑنے کے ساتھ قرضِ حسن دینے کا عہد توڑنے کا بھی ذکر فرمایا ہے۔تفصیل کے لیے دیکھیے سورۂ مائدہ کی آیت (13،12) کی تفسیر۔