سورة الحديد - آیت 14

يُنَادُونَهُمْ أَلَمْ نَكُن مَّعَكُمْ ۖ قَالُوا بَلَىٰ وَلَٰكِنَّكُمْ فَتَنتُمْ أَنفُسَكُمْ وَتَرَبَّصْتُمْ وَارْتَبْتُمْ وَغَرَّتْكُمُ الْأَمَانِيُّ حَتَّىٰ جَاءَ أَمْرُ اللَّهِ وَغَرَّكُم بِاللَّهِ الْغَرُورُ

ترجمہ عبدالسلام بھٹوی - عبدالسلام بن محمد

وہ انھیں آواز دیں گے کیا ہم تمھارے ساتھ نہ تھے ؟ وہ کہیں گے کیوں نہیں اور لیکن تم نے اپنے آپ کو فتنے میں ڈالا اور تم انتظار کرتے رہے اور تم نے شک کیا اور (جھوٹی) آرزوؤں نے تمھیں دھوکا دیا، یہاں تک کہ اللہ کا حکم آگیا اور اس دغاباز نے تمھیں اللہ کے بارے میں دھوکا دیا۔

تفسیر القرآن کریم (تفسیر عبدالسلام بھٹوی) - حافظ عبدالسلام بن محمد

يُنَادُوْنَهُمْ اَلَمْ نَكُنْ مَّعَكُمْ: منافق انھیں پکار پکار کر کہیں گے کہ کیا ہم تمھارے ساتھ نہ تھے، کیا ہم کلمہ نہیں پڑھتے تھے، کیا ہم تمھارے ساتھ نمازیں نہیں پڑھتے تھے، زکوٰۃ اور حج ادا نہیں کرتے تھے اور ہر کام میں تمھارے ساتھ نہیں ہوتے تھے ؟ اب تم ہمیں ساتھ کیوں نہیں لے جاتے؟ قَالُوْا بَلٰى وَ لٰكِنَّكُمْ فَتَنْتُمْ اَنْفُسَكُمْ: یعنی تم مسلمان ہو کر بھی نہ دل سے مسلمان ہوئے اور نہ پوری طرح ایک طرف ہو کر مسلمانوں کے ساتھی بنے، بلکہ تم نے اپنے آپ کو نفاق کے فتنے ہی میں مبتلا رکھا۔ وَ تَرَبَّصْتُمْ: اور تم انتظار میں رہے کہ کب مسلمانوں پر کوئی آفت آتی ہے۔ وَ ارْتَبْتُمْ: یہ ’’رَيْبٌ‘‘ سے باب افتعال ’’ اِرْتَابَ يَرْتَابُ اِرْتِيَابًا‘‘ کے ماضی معلوم کا صیغہ ہے، یعنی اللہ اور اس کے رسول پر ایمان و یقین کے بجائے تم شک اور تذبذب میں رہے۔ وَ غَرَّتْكُمُ الْاَمَانِيُّ: ’’ الْاَمَانِيُّ ‘‘ ’’ أُمْنِيَّةٌ ‘‘ کی جمع ہے، یعنی تمھیں ان آرزوؤں نے دھوکے میں رکھا کہ بس چند دن میں مسلمان تباہ ہو جائیں گے اور اسلام کا نام و نشان مٹ جائے گا۔ حَتّٰى جَآءَ اَمْرُ اللّٰهِ: حتیٰ کہ تمھیں موت آگئی اور توبہ اور اخلاصِ عمل کا موقع ہاتھ سے نکل گیا۔ وَ غَرَّكُمْ بِاللّٰهِ الْغَرُوْرُ: ’’ الْغَرُوْرُ ‘‘ سے مراد شیطان ہے۔ مزید دیکھیے سورۂ فاطر ( 6،5)۔