سورة الحديد - آیت 8

وَمَا لَكُمْ لَا تُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ ۙ وَالرَّسُولُ يَدْعُوكُمْ لِتُؤْمِنُوا بِرَبِّكُمْ وَقَدْ أَخَذَ مِيثَاقَكُمْ إِن كُنتُم مُّؤْمِنِينَ

ترجمہ عبدالسلام بھٹوی - عبدالسلام بن محمد

اور تمھیں کیا ہے تم اللہ پر ایمان نہیں لاتے، جب کہ رسول تمھیں دعوت دے رہا ہے کہ اپنے رب پر ایمان لاؤ اور یقیناً وہ تم سے پختہ عہد لے چکا ہے، اگر تم ایمان والے ہو۔

تفسیر القرآن کریم (تفسیر عبدالسلام بھٹوی) - حافظ عبدالسلام بن محمد

وَ مَا لَكُمْ لَا تُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰهِ ....: یہ خطاب بھی مسلمانوں ہی سے ہے، اس کی دلیل آیت کا آخری جملہ ’’ وَ قَدْ اَخَذَ مِيْثَاقَكُمْ اِنْ كُنْتُمْ مُّؤْمِنِيْنَ ‘‘ (اور یقیناً وہ تم سے پختہ عہد لے چکا ہے اگر تم مومن ہو) ہے۔ اسی طرح بعد والی آیت (۱۰): ﴿ لَا يَسْتَوِيْ مِنْكُمْ مَّنْ اَنْفَقَ مِنْ قَبْلِ الْفَتْحِ وَ قٰتَلَ ﴾ بھی اس کی دلیل ہے۔ جس طرح پچھلی آیت میں ایمان والوں کو ایمان لانے اور خرچ کرنے کا حکم ہے، اسی طرح اس آیت میں بھی انھیں جھنجھوڑا جا رہا ہے کہ آخر وجہ کیا ہے کہ تم اللہ پر ایمان نہیں لاتے؟ یعنی اس پر ایمان کے تقاضوں پر عمل کرتے ہوئے اس کے راستے میں خرچ نہیں کرتے، حالانکہ رسول خود تمھارے درمیان موجود ہے اور بہ نفس نفیس تمھیں اس بات کی دعوت دے رہا ہے کہ اپنے رب پر ایمان لاؤ اور اس پر یقین رکھتے ہوئے اس کی راہ میں خرچ کرو۔ وَ قَدْ اَخَذَ مِيْثَاقَكُمْ اِنْ كُنْتُمْ مُّؤْمِنِيْنَ: ’’ اَخَذَ ‘‘ کا فاعل ’’ الرَّسُوْلُ ‘‘ کی ضمیر بھی ہو سکتی ہے اور لفظ ’’ اللّٰهِ‘‘ کی ضمیر بھی، یعنی جب تم نے ایمان قبول کیا تھا اس وقت اللہ نے تم سے اطاعت کا پختہ عہد لیا تھا، اسی طرح کلمۂ اسلام کے ساتھ تم رسول کو بھی اپنی اطاعت کا پختہ عہد دے چکے ہو، تو اب اطاعت سے گریز اور جہاد فی سبیل اللہ میں خرچ کرنے سے دریغ کیوں کر رہے ہو ؟ اللہ تعالیٰ کے عہد لینے کا ذکر اس آیت میں ہے : ﴿وَ اذْكُرُوْا نِعْمَةَ اللّٰهِ عَلَيْكُمْ وَ مِيْثَاقَهُ الَّذِيْ وَاثَقَكُمْ بِهٖ اِذْ قُلْتُمْ سَمِعْنَا وَ اَطَعْنَا وَ اتَّقُوا اللّٰهَ اِنَّ اللّٰهَ عَلِيْمٌۢ بِذَاتِ الصُّدُوْرِ﴾ [ المائدۃ:۷ ] ’’اور اپنے اوپر اللہ کی نعمت یاد کرو اور اس کا عہد جو اس نے تم سے مضبوط باندھا، جب تم نے کہا ہم نے سنا اور ہم نے مان لیا اور اللہ سے ڈرو، بے شک اللہ سینوں کی بات کو خوب جاننے والا ہے۔‘‘ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو عہد دینے کا ذکر اس حدیث میں ہے جو عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، انھوں نے فرمایا : (( بَايَعْنَا رَسُوْلَ اللّٰهِ صَلَّی اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَی السَّمْعِ وَالطَّاعَةِ فِي الْمَنْشَطِ وَالْمَكْرَهِ وَ أَنْ لاَ نُنَازِعَ الْأَمْرَ أَهْلَهُ، وَ أَنْ نَقُوْمَ أَوْ نَقُوْلَ بِالْحَقِّ حَيْثُمَا كُنَّا، لاَ نَخَافُ فِي اللّٰهِ لَوْمَةَ لاَئِمٍ )) [بخاري، الأحکام، باب کیف یبایع الإمام الناس؟ : ۷۱۹۹،۷۲۰۰ ] ’’ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بیعت کی کہ نشاط اور ناگواری دونوں حالتوں میں سمع و طاعت کریں گے اور صاحب امر سے امارت میں جھگڑا نہیں کریں گے اور جہاں بھی ہوں گے حق کہیں گے، اللہ کے بارے میں کسی ملامت کرنے والے کی ملامت سے نہیں ڈریں گے۔‘‘ 3۔ بعض مفسرین نے ’’ وَ قَدْ اَخَذَ مِيْثَاقَكُمْ ‘‘ سے ’’ اَلَسْتُ بِرَبِّكُمْ ‘‘ والا عہد مراد لیا ہے، جس کا ذکر سورۂ اعراف (۱۷۲) میں ہے، مگر یہاں آیات کا سیاق اس کی موافقت نہیں کرتا، اس لیے پہلی تفسیر ہی درست ہے۔ ابن کثیر رحمہ اللہ نے بھی اسی کو ترجیح دی ہے۔