لَهُ مُلْكُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ ۖ يُحْيِي وَيُمِيتُ ۖ وَهُوَ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ
اسی کے لیے آسمانوں اور زمین کی بادشاہی ہے، وہ زندگی بخشتا اور موت دیتا ہے اور وہ ہر چیز پر پوری طرح قادر ہے۔
1۔ لَهٗ مُلْكُ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ:’’ لَهٗ ‘‘ خبر کو پہلے لانے سے حصر پیدا ہو گیا، یعنی آسمانوں اور زمین کی بادشاہی اسی کی ہے، کسی اور کی نہیں۔ دوسرے کسی کے پاس بادشاہی اگر ہے تو سارے آسمانوں اور زمین کی نہیں بلکہ زمین کے کسی چھوٹے سے قطعے کی تھوڑے سے وقت کے لیے اور وہ بھی اسی کی عطا کردہ اور ہر لمحے دوسروں کی محتاج۔ مزید دیکھیے سورۂ ملک کی پہلی آیت کی تفسیر۔ پھر کائنات کے سارے اختیارات کے مالک کے مقابلے میں کسی اور کی عبادت کا کیا جواز ہے؟ 2۔ يُحْيٖ وَ يُمِيْتُ: اگرچہ یہ دونوں صفات ’’ لَهٗ مُلْكُ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ ‘‘ کے مضمون میں شامل ہیں، مگر انھیں خاص طور پر الگ اس لیے ذکر فرمایا کہ یہ دونوں کام زمین و آسمان میں اللہ تعالیٰ کے ان تصرفات میں سے ہیں جن کی حقیقت اس کے سوا کوئی نہیں جانتا اور مخلوق میں سے کوئی دعویٰ بھی نہیں کر سکتا کہ ان میں اس کا کوئی دخل ہے اور اس میں قیامت کے امکان کی بھی دلیل ہے جس کا مشرک انکار کرتے ہیں اور ان کے بنائے ہوئے خداؤں کے باطل ہونے کی طرف اشارہ بھی ہے، یعنی ’’ لَا يَمْلِكُوْنَ مَوْتًا وَّ لَا حَيٰوةً وَّ لَا نُشُوْرًا ‘‘ کہ باطل معبود تو نہ کسی موت کے مالک ہیں اور نہ زندگی کے اور نہ اٹھائے جانے کے۔ دیکھیے سورۂ فرقان (۳)۔ 3۔ وَ هُوَ عَلٰى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيْرٌ: اس کی وضاحت کے لیے دیکھیے سورۂ ملک کی پہلی آیت کی تفسیر۔