سورة الحديد - آیت 1

سَبَّحَ لِلَّهِ مَا فِي السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ ۖ وَهُوَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ

ترجمہ عبدالسلام بھٹوی - عبدالسلام بن محمد

اللہ کا پاک ہونا بیان کیا ہر اس چیز نے جو آسمانوں اور زمین میں ہے اور وہی سب پر غالب، کمال حکمت والا ہے۔

تفسیر القرآن کریم (تفسیر عبدالسلام بھٹوی) - حافظ عبدالسلام بن محمد

سَبَّحَ لِلّٰهِ مَا فِي السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ: یعنی زمین و آسمان کی ہر چیز نے اس بات کی شہادت دی ہے کہ اس کا خالق و مالک اللہ عزوجل ہر عیب اور کمی سے پاک ہے، اس کی ذات و صفات، افعال و احکام غرض ہر چیز کسی بھی طرح کے عیب اور نقص سے پاک ہے۔ اس سورت میں اور سورۂ صف اور سورۂ حشر کے شروع میں ’’سَبَّحَ‘‘ (ماضی) آیا ہے، سورۂ جمعہ اور سورۂ تغابن میں ’’ يُسَبِّحُ ‘‘ (مضارع) آیا ہے، جس میں حال واستقبال دونوں شامل ہیں اور سورۂ بنی اسرائیل میں ’’ سُبْحٰنَ ‘‘ (مصدر) آیا ہے، جس میں دوام پایا جاتا ہے۔ یعنی کائنات کا ذرّہ ذرّہ ہمیشہ سے اللہ تعالیٰ کا ہر عیب سے پاک ہونا بیان کرتا چلا آیا ہے، اب بھی کر رہا ہے اور آئندہ بھی کرتا رہے گا۔ سورۂ اعلیٰ میں ’’ سَبِّحْ ‘‘ امر کے ساتھ بھی آیا ہے۔ 2۔ اس میں مشرکین پر چوٹ ہے کہ کائنات کی ہر چیز اللہ تعالیٰ کے ہر عیب سے پاک ہونے کا اعلان کر رہی ہے اور تم ہو کہ اس کے لیے شریک اور اس کے لیے اولاد بنا کر اس پر اتنا بڑا عیب لگا رہے ہو جس سے بڑا عیب اور جس سے بڑی گالی اس کے لیے ہو ہی نہیں سکتی۔ تمھیں پیدا اس نے کیا، تمھاری پرورش وہ کر رہا ہے اور تمھاری ہر ضرورت پوری وہ کرتا ہے، تمھاری موت و حیات اس کے ہاتھ میں ہے، مگر تم اس کے بے بس بندوں میں سے کسی کو داتا کہتے ہو، کسی کو دستگیر، کسی کو مشکل کشا اور کسی کو گنج بخش، کسی کو تم نے اولاد دینے والا بنا رکھا ہے توکسی کو حکومت دینے والا، کسی کو خزانے بخشنے والا تو کسی کو شفا دینے والا، کسی کے متعلق کہتے ہو کہ وہ اللہ کی تقدیر کا رخ پھیر دیتا ہے اور کسی کے بارے میں کہتے ہو کہ وہ کمان سے نکلا ہوا تیر راستے سے واپس لے آتا ہے۔ اب آسمان و زمین کی ہر چیز کی گواہی کو دیکھو اور اپنے طرز عمل کو دیکھو۔ عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنھما نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کرتے ہیں : (( قَالَ اللّٰهُ كَذَّبَنِيَ ابْنُ آدَمَ وَ لَمْ يَكُنْ لَهُ ذٰلِكَ وَشَتَمَنِيْ وَلَمْ يَكُنْ لَهُ ذٰلِكَ، فَأَمَّا تَكْذِيْبُهُ إِيَّايَ فَزَعَمَ أَنِّيْ لاَ أَقْدِرُ أَنْ أُعِيْدَهُ كَمَا كَانَ وَ أَمَّا شَتْمُهُ إِيَّايَ فَقَوْلُهُ لِيْ وَلَدٌ، فَسُبْحَانِيْ أَنْ أَتَّخِذَ صَاحِبَةً أَوْ وَلَدًا )) [بخاري، التفسیر، سورۃ البقرۃ، باب: ﴿ وقالوا اتخذ اللّٰہ ولدا سبحانہ﴾ : ۴۴۸۲ ]’’اللہ تعالیٰ نے فرمایا ، ابنِ آدم نے مجھے جھٹلا دیا، حالانکہ یہ اس کا حق نہیں تھا اور اس نے مجھے گالی دی، حالانکہ یہ اس کا حق نہیں تھا۔ اس کا مجھے جھٹلانا تو یہ ہے کہ وہ سمجھتا ہے کہ میں اسے دوبارہ بنانے پر قادر نہیں ہوں اور اس کا مجھے گالی دینا اس کا یہ کہنا ہے کہ میری کوئی اولاد ہے، حالانکہ میں اس سے پاک ہوں کہ میں کوئی بیوی یا اولاد بناؤں۔‘‘ اس سورت میں اور مذکورہ بالا دوسری سورتوں کی آیات میں ’’ تسبیح‘‘ کے لفظ اور اس حدیث میں ’’سُبْحَانِيْ‘‘ کے لفظ پر غور فرمائیں تو تسبیح کا مفہوم کافی حد تک واضح ہو جائے گا۔ یہی وجہ ہے کہ اس سورت میں اللہ تعالیٰ نے اپنی تسبیح کے ذکر کے بعد اپنی دس سے زیادہ صفات بیان فرمائیں اور سب کے بعد کفر و شرک چھوڑ کر ایمان لانے کی دعوت دی، فرمایا : ﴿اٰمِنُوْا بِاللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖ وَ اَنْفِقُوْا مِمَّا جَعَلَكُمْ مُّسْتَخْلَفِيْنَ فِيْهِ﴾ [الحدید : ۷ ] ’’اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لاؤ اور ان چیزوں میں سے خرچ کرو جن میں اس نے تمھیں (پہلوں کا) جا نشین بنایا ہے۔‘‘ 3۔ تسبیح کا لغوی معنی کیا ہے، قرآنی آیات میں اس کا مفہوم کیا ہے، یہ تسبیح زبان حال سے ہے یا قول کے ساتھ؟ ان سب باتوں کے لیے دیکھیے سورۂ بنی اسرائیل (44،43) کی تفسیر۔ وَ هُوَ الْعَزِيْزُ الْحَكِيْمُ: ’’ الْعَزِيْزُ ‘‘ ’’عَزَّ يَعِزُّ ‘‘ (ض) سے مبالغے کا صیغہ ہے، سب پر غالب، کوئی کام ایسا نہیں جو وہ کرنا چاہے اور نہ کر سکے اور کوئی ہستی ایسی نہیں جو اسے کسی کام سے روک سکے۔ ’’ الْحَكِيْمُ ‘‘ کمال حکمت والا۔ اس کا ہر کام محکم ہے اور دانائی پر مشتمل ہے، اس لیے کہ وہ ماضی، حال اور مستقبل کا کامل علم رکھتا ہے۔ اس کے کسی کام میں کوئی غلطی نہیں، وہ عزیز ہے تو حکیم بھی ہے، اس کا غلبہ اندھے کی لاٹھی نہیں، بلکہ اس کے ساتھ کمال حکمت بھی شامل ہے۔ ’’ الْعَزِيْزُ الْحَكِيْمُ ‘‘ خبر پر الف لام سے کلام میں حصر پیدا ہو گیا کہ عزیز و حکیم صرف وہ ہے، کوئی اور نہیں۔