لَوْ نَشَاءُ لَجَعَلْنَاهُ حُطَامًا فَظَلْتُمْ تَفَكَّهُونَ
اگر ہم چاہیں تو ضرور اسے ریزہ ریزہ کردیں، پھر تم تعجب سے باتیں بناتے رہ جاؤ۔
1۔ لَوْ نَشَآءُ لَجَعَلْنٰهُ حُطَامًا ....: ’’ حُطَامًا ‘‘ ’’حَطَمَ يَحْطِمُ حَطْمًا‘‘ (ض) (توڑنا) سے مشتق ہے، بمعنی ’’مَحْطُوْمٌ‘‘ ، جیسے ’’فُتَاتًا‘‘ ’’فَتٌّ‘‘ سے اور ’’جُذَاذًا‘‘ ’’جَذٌّ‘‘ سے مشتق ہے۔ سب کا معنی ’’ریزہ ریزہ کیا ہوا‘‘ہے۔ ’’ فَظَلْتُمْ‘‘ اصل میں باب ’’سَمِعَ‘‘ سے ’’فَظَلِلْتُمْ‘‘ ہے، پہلا لام تخفیف کے لیے حذف کر دیا ہے۔ (دیکھیے طٰہٰ : ۹۷) ’’ تَفَكَّهُوْنَ ‘‘ اصل میں ’’ تَتَفَكَّهُوْنَ‘‘ ہے، ایک تاء تخفیف کے لیے حذف کر دی گئی ہے۔ ’’تَفَكُّهٌ ‘‘ کا اصل معنی ’’ایک پھل سے دوسرے پھل کی طرف منتقل ہونا‘‘ ہے، پھر ایک بات سے دوسری کی طرف منتقل ہونے میں بھی استعمال ہونے لگا۔ یہاں کھیتی برباد ہونے کے بعد طرح طرح کی باتیں کرنا مراد ہے۔ ’’ مُغْرَمُوْنَ ‘‘ غرم، تاوان اور چٹی کو کہتے ہیں، باب افعال سے اسم مفعول کی جمع ہے، تاوان ڈالے گئے لوگ۔ 2۔ مفسر کیلانی لکھتے ہیں: ’’کھیتی کو چورا چورا یا ریزہ ریزہ کر دینے کی بھی کئی صورتیں ہیں، مثلاً جس زمین میں بیج ڈالا گیا اس میں اللہ تعالیٰ شور پیدا کر دے، فصل کمزور اور زرد پیدا ہو اور پوری طرح بار آور نہ ہو، یا فصل اگنے کے بعد اسے کیڑا لگ جائے، یا کسی ارضی یا سماوی آفت، مثلاً کہر اور شدید بارش وغیرہ سے فصل کی نشوو نما رک جائے اور لہلہاتے کھیت زرد پڑ جائیں تو کیا تم میں سے کسی کو یہ اختیار ہے کہ فصل کو ان مصیبتوں سے بچا سکے؟ اور اگر تم خود اللہ کی مہربانی سے پیدا ہو گئے اور اللہ تعالیٰ ہی کی مہربانی سے تمھیں کھانے کو ملتا ہے تو پھر اس کے سامنے تمھاری اکڑ اور سرتابی کا کیا مطلب؟ اس صورت میں تم طرح طرح کی باتیں ہی بناتے رہ جاتے ہو کہ ہمارا تو بیج بھی ضائع ہوگیا، خرچے کی چٹی پڑی، محنت بھی ضائع ہوئی اور آئندہ کھانے کو بھی کچھ نہ ملا، ہم تو مارے گئے۔ یہ بات تمھیں پھر بھی نصیب نہیں ہوتی کہ اللہ کی طرف رجوع کرو اور اسے اللہ کی طرف سے تنبیہ سمجھو۔‘‘ (تیسیرالقرآن)