وَلَا تُؤْتُوا السُّفَهَاءَ أَمْوَالَكُمُ الَّتِي جَعَلَ اللَّهُ لَكُمْ قِيَامًا وَارْزُقُوهُمْ فِيهَا وَاكْسُوهُمْ وَقُولُوا لَهُمْ قَوْلًا مَّعْرُوفًا
اور بے سمجھوں کو اپنے مال نہ دو، جو اللہ نے تمھارے قائم رہنے کا ذریعہ بنائے ہیں اور انھیں ان میں سے کھانے کے لیے دو اور انھیں پہننے کے لیے دو اور ان سے اچھی بات کہو۔
یہاں بے سمجھوں سے مراد وہ لوگ ہیں جو مال کے انتظام کی صلاحیت نہ رکھتے ہوں۔ اس میں چھوٹے بچے اور ناتجربہ کار بیوی بھی آجاتی ہے اور نادان یتیم بھی، یعنی اگر یتیم ناتجربہ کار اور کم عقل ہوں تو وصی یا متولی کو چاہیے کہ یتیم کے مال سے اس کے کھانے پینے اور لباس کا انتظام کرتا رہے، مگر وہ مال اس کے سپرد نہ کرے۔ ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کرتے ہیں کہ تین آدمی اللہ تعالیٰ سے دعا کرتے ہیں مگر ان کی دعا قبول نہیں ہوتی، ایک وہ آدمی جس کی بیوی بدخلق تھی پھر اس نے اسے طلاق نہیں دی اور ایک وہ آدمی جس کا کسی شخص کے ذمے مال تھا مگر اس نے اس پر کوئی گواہ نہیں بنایا اور ایک وہ آدمی جس نے کسی سفیہ (بے وقوف) کو اپنا مال دے دیا جب کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے تم بے وقوفوں کو اپنے مال مت دو۔‘‘ [ صحیح الجامع : ۳۰۷۵ ] اس آیت سے علماء نے سفیہ (کم عقل) پر ’’حجر‘‘ (پابندی) کا حکم اخذ کیا ہے کہ حاکم وقت اس کے لین دین پر پابندی لگا سکتا ہے۔ (قرطبی)