سورة الرحمن - آیت 39

فَيَوْمَئِذٍ لَّا يُسْأَلُ عَن ذَنبِهِ إِنسٌ وَلَا جَانٌّ

ترجمہ عبدالسلام بھٹوی - عبدالسلام بن محمد

پھر اس دن نہ کسی انسان سے اس کے گناہ کے متعلق پوچھا جائے گا اور نہ کسی جن ّسے۔

تفسیر القرآن کریم (تفسیر عبدالسلام بھٹوی) - حافظ عبدالسلام بن محمد

فَيَوْمَىِٕذٍ لَّا يُسْـَٔلُ عَنْ ذَنْۢبِهٖ اِنْسٌ وَّ لَا جَآنٌّ: یعنی اس دن یہ معلوم کرنے کے لیے کہ کون مجرم ہے اور اس نے کیا گناہ کیا ہے، کسی انسان یا جن سے پوچھنے کی ضرورت ہی نہیں ہو گی، کیونکہ تمام مجرم اپنی علامت ہی سے پہچانے جائیں گے، جیسا کہ اگلی آیت میں آ رہا ہے : ﴿يُعْرَفُ الْمُجْرِمُوْنَ بِسِيْمٰهُمْ﴾ ’’مجرم اپنی علامت سے پہچانے جائیں گے۔‘‘ اور جیساکہ سورئہ قصص میں فرمایا : ﴿وَ لَا يُسْـَٔلُ عَنْ ذُنُوْبِهِمُ الْمُجْرِمُوْنَ ﴾ [ القصص:۷۸] ’’اور مجرموں سے ان کے گناہوں کے بارے میں پوچھا نہیں جائے گا۔‘‘ ہاں ڈانٹنے، ذلیل کرنے اور ملامت کرنے کے لیے ضرور پوچھا جائے گا، جیسا کہ فرمایا : ﴿فَوَرَبِّكَ لَنَسْـَٔلَنَّهُمْ اَجْمَعِيْنَ (92) عَمَّا كَانُوْا يَعْمَلُوْنَ ﴾ [ الحجر : ۹۲،۹۳ ] ’’سو تیرے رب کی قسم ہے ! یقیناً ہم ان سب سے ضرور سوال کریں گے۔ اس کے بارے میں جو وہ کیا کرتے تھے۔‘‘ اور فرمایا : ﴿وَ قِفُوْهُمْ اِنَّهُمْ مَّسْـُٔوْلُوْنَ﴾ [ الصافات :۲۴ ] ’’اور انھیں ٹھہراؤ، بے شک یہ سوال کیے جانے والے ہیں۔ ‘‘