سورة الرحمن - آیت 29

يَسْأَلُهُ مَن فِي السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ ۚ كُلَّ يَوْمٍ هُوَ فِي شَأْنٍ

ترجمہ عبدالسلام بھٹوی - عبدالسلام بن محمد

اسی سے مانگتا ہے جو کوئی آسمانوں اور زمین میں ہے، ہر دن وہ ایک (نئی) شان میں ہے۔

تفسیر القرآن کریم (تفسیر عبدالسلام بھٹوی) - حافظ عبدالسلام بن محمد

يَسْـَٔلُهٗ مَنْ فِي السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ: یہ ہر چیز کے فانی ہونے اور اللہ تعالیٰ کے باقی ہونے کی دلیل ہے۔ یعنی اللہ تعالیٰ ہمیشہ باقی ہے، کیونکہ وہ غنی ہے، اپنے وجود یا بقا یا کسی بھی چیز میں کسی دوسرے کا محتاج نہیں، مگر اس کے سوا جو بھی ہے خواہ آسمان ہوں یا زمین یا جو ان دونوں میں ہے، سب اپنے وجود، اپنی بقا اور اپنی ہر ضرورت کے لیے ہر لمحے اس کے محتاج ہیں۔ اپنی ہر ضرورت اسی سے مانگ رہے ہیں، کوئی زبانِ قال سے مانگ رہا ہے، کوئی زبانِ حال سے اور کوئی دونوں سے۔ جس کی زندگی کا ہر لمحہ مانگنے پر موقوف ہے وہ کیا خاک باقی رہے گا۔ كُلَّ يَوْمٍ هُوَ فِيْ شَاْنٍ: ’’ كُلَّ يَوْمٍ ‘‘ سے مراد ہر وقت ہے۔ ’’ شَاْنٍ ‘‘ میں تنوین تنکیر کے لیے ہے، یعنی وہ ہر لمحے ایک نئی سے نئی شان میں ہے، کسی کو پیدا کر رہا ہے اور کسی کو مار رہا ہے، کسی کو اٹھا رہا ہے اور کسی کو گرا رہا ہے، کسی کو بیمار کر رہا ہے اور کسی کو شفا بخش رہا ہے۔ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : (( يَدُ اللّٰهِ مَلَاٰی لاَ تَغِيْضُهَا نَفَقَةٌ سَحَّاءُ اللَّيْلَ وَالنَّهَارَ وَ قَالَ أَرَأَيْتُمْ مَا أَنْفَقَ مُنْذُ خَلَقَ السَّمَاءَ وَالْأَرْضَ فَإِنَّهُ لَمْ يَغِضْ مَا فِيْ يَدِهِ وَكَانَ عَرْشُهُ عَلَی الْمَاءِ وَبِيَدِهِ الْمِيْزَانُ يَخْفِضُ وَ يَرْفَعُ )) [ بخاري، التفسیر، سورۃ ہود، باب قولہ : ﴿وکان عرشہ علی الماء﴾ : ۴۶۸۴ ] ’’اللہ کا ہاتھ بھرا ہوا ہے، کسی قسم کا خرچ کرنا اس میں کمی نہیں لاتا، رات دن بے حساب برسنے والا ہے۔ تم نے دیکھا اس نے جب سے آسمان و زمین پیدا کیے، کیا کچھ خرچ کیا، تو اس (خرچ کرنے)نے اس میں کوئی کمی نہیں کی جو اس کے ہاتھ میں ہے اور اس کا عرش پانی پر تھا اور اس کے ہاتھ میں ترازو ہے۔ نیچے کرتا ہے اور اونچا کرتا ہے۔‘‘ اور ابو الدرداء رضی اللہ عنہ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ’’ كُلَّ يَوْمٍ هُوَ فِيْ شَاْنٍ ‘‘ کی تفسیر کے بیان میں روایت کیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : (( مِنْ شَأْنِهٖ أَنْ يَغْفِرَ ذَنْبًا وَ يُفَرِّجَ كَرْبًا وَ يَرْفَعَ قَوْمًا وَ يَخْفِضَ آخَرِيْنَ )) [ ابن ماجہ، المقدمۃ، باب فیما أنکرت الجھمیۃ : ۲۰۲، و قال الألباني حسن ] ’’اس کی شان سے ہے کہ وہ کوئی نہ کوئی گناہ بخش رہا ہے، کوئی نہ کوئی مصیبت دور کر رہا ہے اور کسی قوم کو اونچا کر رہا ہے اور کسی کو نیچا کر رہا ہے۔‘‘ 3۔ اس میں یہود کا بھی ردّ ہے جنھوں نے کہا کہ اللہ تعالیٰ نے چھ دنوں میں زمین و آسمان پیدا فرمائے اور ہفتہ کے دن آرام کیا۔ فرمایا وہ ہر دن ہی نئی شان میں ہے، اسے نہ تھکاوٹ ہوتی ہے نہ آرام کی ضرورت ہے۔ 4۔ یونان کے فلسفی آسمانی ہدایت سے محروم تھے، انھوں نے اللہ تعالیٰ کا وجود ماننے کے باوجود اپنے دیوتاؤں کی گنجائش نکالنے کے لیے ایک قاعدہ وضع کیا ، جو یہ تھا کہ ’’ہر محل حوادث حادث ہوتا ہے۔ چونکہ اللہ تعالیٰ قدیم ہے، ہمیشہ سے ہے، اس لیے اس پر حوادث نہیں آ سکتے۔‘‘ افسوس ! بعض مسلمان متکلمین نے بھی ان کا یہ قاعدہ تسلیم کر لیا۔ نتیجہ اس کا یہ نکلا کہ انھوں نے اللہ تعالیٰ کی صفات کا انکار کر دیا۔ بعض نے تاویل کی اور ایسی تاویل کی جو درحقیقت بدترین تحریف ہے۔ مثلاً اللہ کی صفت کلام ہے، جیسا کہ فرمایا : ﴿وَ كَلَّمَ اللّٰهُ مُوْسٰى تَكْلِيْمًا ﴾ [ النساء : ۱۶۴ ] ’’اور اللہ نے موسیٰ سے کلام کیا، خود کلام کرنا۔‘‘ اور فرمایا : ﴿وَ اِنْ اَحَدٌ مِّنَ الْمُشْرِكِيْنَ اسْتَجَارَكَ فَاَجِرْهُ حَتّٰى يَسْمَعَ كَلٰمَ اللّٰهِ ﴾ [ التوبۃ : ۶ ] ’’اور اگر مشرکوں میں سے کوئی تجھ سے پناہ مانگے تو اسے پناہ دے دے، یہاں تک کہ وہ اللہ کا کلام سنے۔‘‘ اور فرمایا : ﴿اِنَّمَااَمْرُهٗ اِذَا اَرَادَ شَيْـًٔا اَنْ يَّقُوْلَ لَهٗ كُنْ فَيَكُوْنُ﴾ [ یٰسٓ : ۸۲ ] ’’اس کا حکم تو، جب وہ کسی چیز کا ارادہ کرتا ہے، اس کے سوا نہیں ہوتا کہ اسے کہتا ہے ’’ہو جا‘‘ تو وہ ہو جاتی ہے۔ ‘‘ یہ ساری کائنات اس کے کلمۂ کن سے وجود میں آئی ہے۔ ظاہر ہے کلام کا ہر لفظ حادث ہے، پہلے موجود نہیں ہوتا، پھر وجود میں آتا ہے، اس لیے متکلمین نے اللہ تعالیٰ کے کلام کا انکار کر دیا۔ اللہ تعالیٰ دیکھتا ہے، سنتا ہے، اترتا ہے، بلند ہوتا ہے، خوش ہوتا ہے، ناراض ہوتا ہے۔ ظاہر ہے یہ صفات اور اس جیسی دوسری صفات اللہ تعالیٰ میں ہمیشہ سے ہیں، ان کی انواع قدیم ہیں مگر افراد حادث ہیں، ان کا اظہار مختلف اوقات میں ہوتا رہتا ہے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ جب چاہے کلام کرتا ہے، نیچے اترتا ہے، بلند ہوتا ہے، پیدا کرتا ہے، مارتا ہے، ہر ایک کو ہر لمحے روزی بخشتا ہے، ہر لمحے ہر ایک کو دیکھتا ہے، اس کی سنتا ہے، اس کی ضرورت پوری کرتا ہے، مگر یونانی فلسفیوں کی تقلید میں متکلمین نے اللہ تعالیٰ کو سننے، دیکھنے، بولنے، خوش ہونے، ناراض ہونے، غرض اس طرح کی تمام صفات سے عاری قرار دیا۔ اس مقام پر بھی اللہ تعالیٰ نے اپنی یہ صفت بیان فرمائی ہے کہ وہ آسمان و زمین کی ہر چیز کے سوال کو سنتا ہے اور ہر لمحے نئی سے نئی شان میں ہے؟ اب ہم یونان کے کافر فلاسفر اور ان کے مقلد بعض متکلمین کی بات مانیں کہ اللہ تعالیٰ پر کوئی نئی شان وارد نہیں ہو سکتی یا اللہ تعالیٰ کی بات پر ایمان رکھیں کہ وہ ہر لمحے ایک نئی سے نئی شان میں ہے ؟ ظاہر ہے جس کے دل میں ایمان ہے وہ تو اللہ تعالیٰ ہی کی بات مانے گا، خواہ کوئی فلسفی اسے مانے یا نہ مانے۔