يَا أَيُّهَا النَّاسُ اتَّقُوا رَبَّكُمُ الَّذِي خَلَقَكُم مِّن نَّفْسٍ وَاحِدَةٍ وَخَلَقَ مِنْهَا زَوْجَهَا وَبَثَّ مِنْهُمَا رِجَالًا كَثِيرًا وَنِسَاءً ۚ وَاتَّقُوا اللَّهَ الَّذِي تَسَاءَلُونَ بِهِ وَالْأَرْحَامَ ۚ إِنَّ اللَّهَ كَانَ عَلَيْكُمْ رَقِيبًا
اے لوگو! اپنے رب سے ڈرو جس نے تمھیں ایک جان سے پیدا کیا اور اس سے اس کی بیوی پیدا کی اور ان دونوں سے بہت سے مرد اور عورتیں پھیلا دیں اور اللہ سے ڈرو جس کے واسطے سے تم ایک دوسرے سے سوال کرتے ہو اور رشتوں سے بھی، بے شک اللہ ہمیشہ تم پر پورا نگہبان ہے۔
1۔ خَلَقَكُمْ مِّنْ نَّفْسٍ وَّاحِدَةٍ: یعنی پوری نوع انسانی آدم علیہ السلام کی نسل سے ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’(قیامت کے دن) لوگ آدم علیہ السلام کے پاس جائیں گے اور کہیں گے، اے آدم ! آپ انسانوں کے باپ ہیں، آپ کو اللہ تعالیٰ نے اپنے ہاتھوں سے بنایا۔‘‘ [ بخاری، أحادیث الأنبیاء، باب قول اللّٰہ تعالٰی :﴿و لقد أرسلنا …﴾ : ۳۳۴۰، عن أبی ھریرۃ رضی اللّٰہ عنہ ] ایک جان سے پیدا کرنے سے یہ توجہ دلانا بھی مقصود ہے کہ تم تمام انسان ایک شخص کی اولاد ہو، کوئی اور رشتہ داری نہ ہو تو یہ رشتہ داری کیا کم ہے، اس کا خیال ہی رکھو اور اپنے کمزوروں کی مدد کرتے رہو۔ 2۔ وَ خَلَقَ مِنْهَا زَوْجَهَا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’عورت کو پسلی سے پیدا کیا گیا ہے اور پسلی میں سب سے ٹیڑھا حصہ اوپر کا ہوتا ہے، سو اگر تم اسے سیدھا کرنا چاہو گے تو توڑ بیٹھو گے اور اگر اس سے فائدہ اٹھانا چاہو تو اس طرح فائدہ اٹھا ؤ گے کہ اس میں برابر ٹیڑھا پن ہو گا۔‘‘ [ بخاری، أحادیث الأنبیاء، باب خلق آدم و ذریتہ : ۳۳۳۱، ۵۱۸۴، عن أبی ھریرۃ رضی اللّٰہ عنہ ] بعض روایات میں ہے: ((وَ كَسْرُهَا طَلاَقُهَا )) ’’ اور اس کا توڑنا اسے طلاق دینا ہے۔‘‘ [ مسلم، الرضاع، باب الوصیۃ بالنساء : 59؍715 بعد ح : ۱۴۶۶۔ بخاری : ۵۱۸۴ ] قرآن کی آیت سے معلوم ہوا کہ حواء علیھا السلام آدم علیہ السلام سے پیدا ہوئیں۔ حدیث سے ثابت ہوا کہ پسلی سے پیدا ہوئیں، اس کی کیفیت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان نہیں کی۔ بعض لوگ اس کا مطلب یہ بیان کرتے ہیں کہ عورت میں کچھ ٹیڑھا پن رہتا ہی ہے، اس لیے اسے پسلی سے تشبیہ دی گئی ہے، مگر قرآن کے صریح الفاظ کہ آدم سے اس کی بیوی کو پیدا کیا، ان کے ساتھ حدیث ملائیں تو اس کا پسلی سے پیدا ہونا ثابت ہوتا ہے۔ ہاں، اس کی کجی بھی اپنی جگہ درست ہے۔ 3۔ تَسَآءَلُوْنَ بِهٖ وَ الْاَرْحَامَ: یعنی جس اللہ کا نام لے کر تم ایک دوسرے سے سوال کرتے ہو، اس اللہ سے ڈرو۔ ”وَ الْاَرْحَامَ“ اس کا عطف لفظ ’’اللّٰهَ ‘‘ پر ہے، یعنی ’’وَاتَّقُوا الْأَرْحَامَ‘‘ کہ قطع رحمی اور رشتہ داروں کے ساتھ بدسلوکی سے بچو۔ ”الْاَرْحَامَ“ کو میم کے کسرہ سے پڑھنا غلط ہے اور قواعد نحویہ کی رو سے بھی ٹھیک نہیں، ہاں معنی کے اعتبار سے صحیح ہے، یعنی جس رشتہ داری کے نام پر ایک دوسرے سے سوال کرتے ہو۔ (قرطبی) شوکانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ تمام علمائے شریعت و لغت کا اتفاق ہے کہ ”الْاَرْحَامَ“ سے محرم اور غیر محرم تمام رشتے مراد ہیں۔ قرآن و حدیث میں قطع رحمی کی بہت مذمت آئی ہے۔ دیکھیے سورۂ محمد (۲۲،۲۳) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’رشتے داری کو توڑنے والا جنت میں نہیں جائے گا۔‘‘ [ بخاری، الأدب، باب إثم القاطع : ۵۹۸۴، عن جبیر بن مطعم رضی اللّٰہ عنہ ] اور فرمایا : ’’جو شخص چاہے کہ اس کے رزق میں فراخی ہو اور اس کے نشانِ( قدم) دیر تک رکھے جائیں وہ اپنی رشتے داری کو ملائے۔‘‘ [ بخاری، الأدب، باب فضل صلۃ الرحم....: ۵۹۸۳، عن أبی أیوب الأنصاری رضی اللّٰہ عنہ ] 4۔ رَقِيْبًا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’اللہ کی عبادت کر گویا تو اسے دیکھ رہا ہے، سو اگر تو اسے نہیں دیکھ رہا تو وہ تجھے دیکھ رہا ہے۔‘‘ [ بخاری، الإیمان، باب سؤال جبریل النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم : ۵۰ ۔ مسلم : ۸، عن أبی ہریرۃ و عمر رضی اللّٰہ عنہما ]